دوسری جوابی کارروائی...حریت نیتاﺅں کی سیکورٹی ہٹی!

حریت کانفرنس یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندی کے نظرئے کو فروغ دیتی ہے ۔سال 1987کو نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد پر چناﺅ لڑنے کا اعلان کر دیا گیا تھا ۔اس کے خلاف وادی میں احتجاج بھی ہوا اس چناﺅ میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر فاروق عبداللہ نے ریاست میں اپنی سرکار بنائی ان کے مخالفت میں کھڑی ہوئی اپوزیشن پارٹیوں کی مسلم یونیائیٹڈ فرنٹ کو محض چار سیٹیں ملیں جبکہ جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کو چالیس اور کانگریس کو 26سیٹیں ملیں اس کے ہی خلاف وادی میں 13جولائی 1993کو آل پارٹیز حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی اس کا صرف ایک ہی مقصد تھا ....وادی میں علیحدگی پسند تحریک و اس کی سرگرمیوں کو رفتار دینا ۔حکومت ہند نے پلوامہ حملے کے بعد دوسرا بڑا قدم حریت کانفرنس کے 6علیحدگی پسند لیڈروں کو ملی سیکورٹی اور دیگر سہولیات واپس لینا ہے جموں و کشمیر کے افسر کے مطابق ان نیتاﺅں میں حریت کانفرنس کے چیر مین میر واعظ فاروق اورشاہ ،ہاشم قریشی ،بلال لون،فضل حق قریشی،عبدالغنی بٹ کو اب کسی طرح کا سیکورٹی کور نہیں دیا جائے گا ۔نہ انہیں سرکاری گاڑیاں دی جائیں گی دوسری دی جانے والی دیگر سہولیات بھی ہٹا لی جائیں گی ۔حکومت ان علیحدگی پسندوں پر سال بھر میں قریب 14کروڑ روپئے خرچ کرتی 11کروڑ سیکورٹی ،دو کروڑ غیر ملکی دورے 50لاکھ روپئے گاڑیوں پر خرچ ہوتے ہیں ۔ان کی حفاظت میں 6سو جوان بھی لگے ہوئے تھے ۔چونکانے والی حقیقت یہ ہے کہ ایسے پچاس کے قریب کشمیری علیحدگی پسند لیڈر ہیں جنہیں ریاستی حکومت نے مرکزی حکومت کے احکامات پر سرکاری سیکورٹی مہیا کروا رکھی ہے ۔قارئین و واقف کاروں کے لئے حریت کانفرنس کے چیر مین میر واعظ مولوی عمر فاروق تو با قاعدہ زیڈ پلس زمرے کی سیکورٹی دی گئی ہے ۔حریت کانفرنس کے جس مہا گٹھ بندھن میں پارٹیاں شامل ہوئی تھیں وہ چاہتی ہیں کہ کشمیر ی عوام میں پبلک ریفرنڈم کرا کر ایک الگ پہچان دلانا ۔حالانکہ ان کے منصوبے پاکستان کو لے کر کافی نرم رہے یہ سبھی کئی موقعوں پر بھارت کے مقابلے پاکستان سے اپنی قربت دکھاتے رہے ہیں ۔90کی دہائی میں جب وادی میں دہشتگردی شباب پر تھی تب انہوںنے خود وہاں کا سیاسی چہرہ بنانے کی کوشش کی لوگوںنے ان کو مسترد کر دیا ۔میر واعظ مولوی عمر فاروق نے علیحدی پسندوںسے سیکورٹی واپس لینے کے فیصلے پر تلخ نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ یہ (سیکورٹی ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے )یہ سرکار کا فیصلہ تھا اسے جاری رکھا جائے یا ہٹا دیا جائے ۔پروفیسر عبدالغنی بٹ نے ریاستی حکومت کے ذریعہ سیکورٹی واپس لئے جانے پر کہا کہ ہم نے کبھی سیکورٹی نہیں مانگی کل اسے ہٹا یا جاتا ہے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا سیکورٹی کو ہندوستانی ایجنسیاں کشمیر کی آزادی پسند تنظیموں اور نیتاﺅں کو بدنام کرنے کے لیئے استعمال کرتی ہیں ۔اس کے ذریعہ ہماری سرگرمیوں کی نگرانی کی جاتی تھی ۔اچھا ہو گیا ہے اب ہم آزادی سے چل سکیں گے سوال یہ اُٹھتا ہے علیحدگی پسندی کے ساتھ انتہا پسندی کی حمایت ان خود ساختہ نیتاﺅں کو آخر سیکورٹی دی ہی کیوںگئی تھی؟کیا یہ عجب نہیں ایک طرف دیش کے خلاف بیان بازی یا پتھر بازوی کرنے اور پتھر بازوں کی حوصلہ افزائی کرنا و سوشل میڈیا پر قابل اعتراض رائے زنی کرنے پر تو دیش ملک کی بغاوت کا مقدمہ درج ہو جاتا ہے لیکن پاکستان کے اشارے پر بھارت کے خلاف مسلسل زہر اگلنے اور مذہبی نفرت پھیلانے و دہشت گردوں کا گن گان کرنے والے حریت نیتا برسوں سے سرکاری سیکورٹی پر چل رہے تھے ؟آخر کس بنیاد پر ان سے امید کی جا رہی تھی کہ یہ کشمیری مسئلے کے حل میں مددگار بن سکتے ہیں ۔چونکہ کشمیر میں علیحدگی پسند ی و دہشتگردی بڑتی جارہی ہے اور انہیں انہیں دفعہ 370کے تحت کہیں زیادہ اختیار حاصل ہے ۔اس لئے یہ صحیح وقت ہے جب اس دفعہ کو ختم کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ۔ یہ دفعہ کشمیر وادی اور باقی ہندوستان کے درمیان ایک کھائی کی طرح ہے اس لئے کشمیریوں کا ایک طبقہ خود کو بھارت سے الگ مانتا ہے اسی مانیتا نے وادی میں علیحدگی پسندی کے بیج بوئے ۔

(انل نریندر) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!