شہزادہ محمد بن سلمان کا غیر رسمی دورہ ہند

سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ ہند ایسے وقت ہوا جب پورا دیش پلوامہ حملے کو لے کر غم میں ڈوبا ہوا تھا اتفاق سے شہزادہ پہلے پاکستان گئے تھے لیکن بھارت کے اعتراض کو دھیان میں رکھتے ہوئے وہ سیدھے پاکستان سے بھارت نہیں آئے بلکہ اپنے دیش جا کر وہاں سے آئے اس سے اتنا تو ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں بھارت کے جذبات کا خیا ل ہے دہلی میں اپنے بیان میں شہزادہ محمد نے سیدھے سیدھے پلوامہ حملے کی مذمت تو نہیں کی لیکن کہا کٹر پسندی اور دہشتگردی پربھارت اور سعودی عرب کی تشویشات یکساں ہیں ۔پرنس نے آتنک کے خلاف لڑائی میں ساتھ دینے کا وعدہ تو کیا لیکن پلوامہ حملے اور پاکستان کے بارے میں ایک لفظ نہیں بولا پلوامہ حملے کے بعد بھارت جبکہ پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے اس میں اب تک فرانس امریکہ ،اسرائیل ،نیوزی لینڈ،جیسے دیش بھارت کا کھلا ساتھ دے چکے ہیں ۔در اصل امریکی دباﺅ کے باوجود بھارت کا ایران سے بڑھتی نزدیکی سعودی عرب کو راس نہیں آرہی ہے ۔لہذا بھارت اور سعودی عرب کے درمیان فوجی ساجھے داری کے دعوئے اور تجارتی امکانات کے باوجود کچھ حصاص ترین ڈپلومیٹک معاملوں پر بحالی اعتماد باقی ہے ۔پاکستان سے روایتی رشتوں کے پیش نظر سعودی عرب بھارت کے ساتھ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہاہے ۔غور طلب ہے کہ بھارت آنے سے پہلے پاکستان گئے سعودی پرنس نے 20ارب ڈالر کی مدد کا وعدہ کیا بھارت کو اس مغالطے میں قطعی نہیں رہنا چاہیے کہ دہشتگردی کے مسئلے پر پاکستان کو گھیرنے میں سعودی عرب اس کی مدد کرئے گا ۔سعودی عرب کے پرنس محمد بن سلمان کے چار ملکوں کے دورے کا مقصد یہ ہے بھی نہیں کہ پرنس سلمان کے لئے اس وقت پاکستان کے آتنکواد کے خلاف زیادہ اپنی تاج پوشی سے پہلے پڑوسی ملکوں کی ہمایت حاصل کرنا ہے پاکستان کے بعد اپنے دو روزہ بھارت اور اس کے ملیشا اور انڈونیشیا کے دورے سے پرنس و ہ حمایت ضرور حاصل کر لیں گے جس کی امریکی صحافی جمال خاغوشی کے استمبول میں سعوری سفارت خانے میں ہوئے قتل کے بعد ان کو سخت ضرورت ہے یہ کسی سے چھپا نہیں ہے کہ وہ سعودی عرب اپنے وہابی نظریہ کو پھیلانے میں سب سے آگے ہیں بھارت کے مدرسوں میں پیسہ دینے والا سب سے بڑی مدد کرنے والا ملک ہے ،یہ الگ بات ہے کہ بھارت اور سعودی عرب کے رشتہ کافی پرانے اور مضبوط ہیں ہمارے چالیس لاکھ لوگ سعودی عرب میں کام کرتے ہیں پرنس سلمان کی بھی یہ کوشش ہے کہ وہ اپنے ملک میں مذہبی دائرے کو آگے بڑھا کر ایک جدید ملک بنانا چاہتے ہیں پاکستان میں یہ بات سرکاری طور پر بھلے ہی نہ کہی گئی ہو لیکن وہاں ایک طبقے کی رائے یہ ضرور ہے کہ بھارت پاک رشتوں کو خراب ہونے سے بچانے کا حامی ابھی بھی سعودی عرب ہی ہے ہم سعودی سے کاروباری رشتے تو بڑھا سکتے ہیں لیکن ہمیں یہ امید نہیں کرنی چاہیے کہ سعودی پاکستان کو الگ تھلگ کرنے میں بھارت کی مدد کرئے گا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟