آنندی بین کے استعفیٰ سے اٹھے سوال

گجرات کی وزیراعلی آنندی بین پٹیل نے بدھوار کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے جو گورنر او پی کوہلی نے منظور بھی کرلیا ہے۔ گجرات بھاجپا اسمبلی پارٹی کی میٹنگ میں ان کے جانشین کا انتخاب ہونے کا امکان ہے۔ آنندی بین نے استعفیٰ کیوں دیا ہے یہ سوال سیاسی گلیاروں میں پوچھا جارہا ہے۔ اس کی وجہ ان کی عمر75 سال ہونا بتایا جاتا ہے۔ وہ 21 نومبر کو پارٹی کے ذریعے مقرر عمر حد میں داخل ہورہی ہیں یا پھرسیاسی حالات اور دلتوں کی ناراضگی اور پٹیلوں میں بھاری غصہ رہا؟ دلت ناراضگی کا اثر بھاجپا کو اترپردیش اور پنجاب میں بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے جہاں چناؤ گجرات اسمبلی سے پہلے ہونا ہیں۔ دراصل جب نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اپنے جانشین کے طور پر آنندی بین کو سب سے موضوع مانا تھا لیکن پہلے پارٹی دار آندولن اور بعد میں گؤ رکشا کے دلتوں پر مبینہ مظالم سے جیسے ردعمل سامنے آئے ہیں اس سے یہ پیغام گیا ہے کہ وہ حالات سنبھالنے میں اہل نہیں ہیں، اسی سے مبینہ طور پر بھاجپا لیڈرشپ بھی چناؤسے پہلے ان کے بدلے کسی اور کو ذمہ داری دینے کے حق میں تھی۔ ویسے آنندی بین خیمے کے مطابق تو ریاست کے وزیر اور افسر پچھلے کچھ عرصے سے سیدھے امت شاہ سے ہدایت لینے میں لگے تھے۔ اس لئے ان کا راج کاج چلانا مشکل ہوگیا تھا۔یہ ہی نہیں ان کے خیمے میں یہی مانا جارہا ہے کہ پاٹی دار آندولن اور دلت ناراضگی کو ہوا دینے میں بھی پارٹی کی اندرونی رسہ کشی ایک بڑی وجہ تھی۔ دراصل آر ایس ایس بھی آنندی بین اس تجربے سے اکتا گئی تھیں۔گجرات میں آج بھاجپا کی حالت انتہائی خراب ہے۔آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت گجرات میں اسمبلی چناؤ ہوتے ہیں تو بی جے پی کو 182 میں سے 60-65 سیٹیں ہی ملیں گی۔ یہ بات بی جے پی اور آر ایس ایس کے سروے سے نکل کر سامنے آئی ہے۔ یہ سروے گجرات میں پھیلے دلت آندولن کے بعد کیا گیا ہے۔ اونا میں مری گائے کی کھال اتارنے پر دلت لڑکوں کی پٹائی کے خلاف گجرات میں دو ہفتوں سے دلت مظاہرے کررہے ہیں۔ سروے کو سنگھ کے ان بنیادی کمپینروں نے انجام دیا ہے جن لوگوں سے فیڈ بیک لینے کی ٹریننگ دی گئی اس میں ہندو ووٹوں کا پولارائزیشن بی جے پی کی طرف بتایا گیا ہے تو کہا گیا ہے کہ دلت ان سے دور جارہے ہیں۔ آج کے گجرات کے حالات بھاجپا کے لئے انتہائی باعث تشویش بنے ہوئے ہیں۔ گجرات دونوں وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ آبائی ریاست ہونے کے ناطے دونوں ہی اس پر اپنی مضبوط پکڑ بنائے رکھنا چاہتے ہیں اور آنندی بین نے انہیں مایوسی کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کا جانشین پارٹی کو کتنا ابھارسکتا ہے۔ نئے وزیر اعلی کو ریاست میں مختلف طبقات کی ناراضگی دور کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی میں نئے سرے سے روح پھونکنی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟