سرکاری بنگلے خالی کریں لیڈر صاحبان

سپریم کورٹ نے پیر کے روز ایک اور تاریخی اور دور اندیش اثر ڈالنے والا فیصلہ لیا ہے۔ عدالت نے ہذا نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ریاستوں کے سابق وزرائے اعلی کو سرکاری مکان میں جمے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اترپردیش سرکار کے ذریعے بنائے گئے اس قاعدے کو بھی منسوخ کردیا جس میں ریاست کے سابق وزرائے اعلی کو تاعمر سرکاری مکان دینے کی سہولت دی گئی تھی۔ اس فہرست میں کلیان سنگھ، نارائن دت تیواری اور رام نریش یادو بھی شامل ہیں۔ بڑی عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی ادارے یا ٹرسٹ کو اگر ٹوکن کرایہ یعنی (ایک روپیہ) سرکاری پراپرٹی دی گئی ہو تو اسے بھی انصاف پر مبنی نہیں مانا جاسکتا۔ صدر ، نائب صدر، وزیر اعظم کو ہی عہد کے بعد بھی سرکاری رہائش دینے کی سہولت ہے۔ جسٹس انل آر دوے اور جسٹس این ۔وی رمن اور جسٹس بھانومتی کی بنچ نے یوپی سرکار کے سابق وزیر اعلی رہائش الاٹمنٹ قاعدہ1997 کو قانون کے مطابق غلط بتایا ہے۔ عدالت نے ان سبھی کو نہ صرف دو ماہ کے اندر سرکاری مکان خالی کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ جتنے وقت تک ان لوگوں نے ناجائز طریقے سے سرکاری رہائشگاہ پر قبضہ بنائے رکھا تھا اس کا کرایہ بھی وصولہ جائے گا۔ فیصلے کی زبان سے صاف ہے اس کا اثر صرف یوپی تک محدود نہیں رہے گا۔ بھلے ہی عدالت نے اپنے فیصلے میں دیگر ریاستوں کا کوئی ذکر نہ کیا ہو لیکن کیونکہ اس نے ایک فیصلہ دیا ہے اس لئے کسی بھی ریاست کے سابق وزیر اعلی اب سرکاری رہائشگاہ کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ اپنے دیش میں اس طرح کے فیصلے بڑی عدالتوں کو کرنے پڑتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہماری سیاست کیسے اپنی آنکھ کان کھوچکی ہے۔ بہار میں نتیش کمار کے پاس ایک بنگلہ وزیر اعلی کی حیثیت ہے تو دوسرا سابق وزیر اعلی کی حیثیت سے ہے۔ اسی طرح چھتیس گڑھ میں اجیت جوگی بھی سابق وزیر اعلی کی حیثیت سے سرکاری بنگلہ میں برسوں سے رہ رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں تو سابق وزیر اعلی نہ صرف سرکاری بنگلوں کا آرام اٹھا رہے ہیں بلکہ کیبنٹ وزیر کا درجہ حاصل کئے گئے لوگ بھی اس کا فائدہ اٹھانے میں لگے ہیں۔ دہلی میں ایسے نیتاؤں اور افسروں کی بھرمار ہے جو ایک بار کسی اہم عہدے پر پہنچ جانے کے بعد سرکاری بنگلوں کو چھوڑنا کا نام نہیں لیتے۔ ان کی موت کے بعد بھی ان کے رشتے دار کسی نہ کسی بہانے ان پر قابض ہیں۔ یہ سیاستداں سرکاری بنگلوں و دیگر سہولیات اور خاص طور پر سکیورٹی صرف اس لئے برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا رتبہ بنا رہے۔ اس رتبے کی بھاری قیمت سرکاری خزاے کو بھگتنی پڑتی ہے۔ اچھا تو یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد نیتاؤں کی وہ سبھی سہولیات چھینی جائیں جن کے وہ حقدار نہیں ہیں۔ یہ بھی یقینی کرنا ہوگا کہ قاعدوں میں چھچھوندر نہ تلاش کئے جائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟