ہائی وے پر وحشی واردات ودرندگی

قومی شاہراہ 91 پر بلند شہر کے قریب کارسوار خاندان کو یرغمال بنا کر ماں بیٹی کے ساتھ اجتماعی بدفعلی کے واقعہ کو کیا کہا جائے؟ شرمناک، مذمت یا درندگی یا رقابت، درندگی کی حد، رونگٹے کھڑے کرنے والی یہ واردات جنگل راج نہیں، بلکہ بربریت آمیز جنگل راج جیسے حالات پیدا کرتی ہے۔ حیرت میں ڈالنے والی یہ واردات اترپردیش میں لاء اینڈ آرڈر کے شرمناک صورتحال کو بیان کرتی ہے۔ یہ واردات بتاتی ہے کہ صوبے میں درندے کرتنے بے خوف ہیں کہ وہ غمزہ خاندان کے ساتھ بربریت کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ جس خاندان کے ساتھ یہ واردات ہوئی وہ اپنے رشتے دار کی تیرہویں میں شامل ہونے کے لئے شاہجہان پور جا رہا تھا لیکن بلندشہرضلع ہیڈ کوارٹر سے محض کچھ کلو میٹر دوری پر ہی کچھ بدمعاشوں نے لوہے کا ایک ٹکڑا پھینک کر ان کی گاڑی کو روک لیا اور پھر مردوں کو یرغمال بنا کر ماں بیٹی کے ساتھ بربریت کی یہ واردات انجام دی۔ یہ واردات اس ریاست کی ہے جہاں کچھ مہینوں بعد اسمبلی چناؤ ہونے والے ہیں۔ یہ معاملہ لاپرواہی سے زیادہ لاپرواہ پولیس مشینری اور جان بوجھ کر بے سمت سرکار کا ہے۔ اترپردیش میں تقریباً ہر مہینے ہونے والے ریپ کی وارداتیں یہ ظاہرکرتی ہیں کہ یہاں کے جرائم پیشہ کو نہ تو پولیس کا کوئی ڈر ہے اور نہ ہی انتظامیہ کا۔ دوہرائی جانی والی وارداتیں یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ ان جرائم پیشہ کے حوصلہ پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے۔ بیشک وزیر اعلی اکھلیش یادو نے پولیس کو سخت کارروائی کرنے کے احکامات دئے ہیں لیکن یہ بات کئی بار دوہرائی جا چکی ہے کہ ان کی سرکار لا اینڈ آرڈر کے معاملے میں لچر ثابت ہوئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایسے گھناؤنے جرائم صرف اترپردیش میں ہی ہوتے ہیں دہلی اور بہار سمیت دیگر ریاستوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن اترپردیش میں ہو رہے جرائم کا گراف بڑھتا جارہا ہے۔ ہر واردات جرائم پیشہ کی دبنگی اور ذہنیت اور پولیس کی لاچاری زیادہ بتاتی ہے۔ مخالف اس کی دو وجہ بتاتے ہیں۔ سرکار میں ایک خاص ذات کی بالادستی ہونے کے بعد اس ذات کے جرائم پیشہ کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔ پولیس بھی ان کے ذریعے ان کے آقاؤں کو ساتھ لیکر نوکری بچانے اور پرموشن پانے تو کبھی ذاتی فائدے کے لئے ساتھی بن جاتی ہے۔ سپا حکومت کو اس پر ضرور غور کرنا چاہئے۔ ان کے عہد میں پولیس پر سوال کیوں اٹھتے ہیں؟ آخر ایسا کیسے ممکن ہے کہ بدمعاشوں کا ایک گروہ قومی شاہراہ سے ایک خاندان کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنالے اور ناپاک منصوبوں کو انجام دیتا رہے اور پولیس کو کئی گھنٹوں تو خبر نہ لگے؟ صوبے کے چیف سکریٹری انل کمار گپتا کے اس تبصرہ پرغور کرنا چاہئے۔ پولیس جب صرف کاغذوں پر مستعد یا گشت کرتی رہے گی تو ایسی وارداتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وارداتیں بتاتی ہیں کہ اترپردیش میں جرائم پیشہ میں نہ توپولیس کا ڈر ہے اور نہ انتظامیہ کا اور نہ ہی قانون کا۔ جب نیشنل ہائی وے پر یہ حال ہے تو صوبے کے دور دراز علاقوں میں کیا حال ہوگااس کا تصور کرنا مشکل نہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟