بارش نہ ہو تو مصیبت ہو توتباہی

عجیب مسئلہ ہے بارش نہ ہو تو مصیبت اور ہو تو مصیبت۔ مسلسل خوشک سالی سے پریشان دیش بارش کے لئے نگاہ لگائے ہوئے تھے، لیکن بارش ہوئی بھی توشہروں سے لیکر دور دراز گاؤں میں ہائے توبہ مچ گئی۔ بہار ، آسام جیسی ریاستی سیلاب سے عموماً متاثر ہونے والے علاقے تو پریشان ہیں وہیں جو ہمارے پلانروں کی ترجیحات میں شاید ہی کبھی آ پائیں۔ تمام طرح کی اسکیموں کے مرکز میں رہنے والے ، ترقی کی آہٹ سے چمکتے شہروں میں بھی ہائے توبہ مچی ہوئی ہے۔ ممبئی ، چنئی، بنگلورو بارش سے بے حال ہیں تو گوڑ گاؤں و دہلی بھی سڑکوں پر پانی جمع ہونے سے پست ہوجاتی ہے۔ سب سے برا حال تو ملینیم سٹی نام سے مشہور نئے ڈیولپمنٹ یافتہ شہر گوڑ گاؤں کا ہوا ہے جسے حال ہی میں ہریانہ سرکار نے گورو گرام کا نام دیا ہے۔ وہاں دو گھنٹے جم کر بارش کیا ہوئی کہ 10 گھنٹے تک گاڑیوں کا جام لگ گیا۔ لوگ شام 4 بجے دہلی کے لئے روانہ ہوئے اور پہنچے اگلے دن صبح۔ سارے کام دھندے ٹھپ ہوگئے لیکن جو ہوا وہ ایک دم حیرانی کا باعث نہیں ہے۔ جس طرح سے شہر بن رہا ہے اس میں بنیادی ڈھانچے سے وابستہ کئی اہم باتوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً پانی کی نکاسی، اس لئے مانسون کے دنوں میں سڑکوں پر اکثر پانی بھر جاتا ہے اور اس کے چلتے آمدورفت رک جاتی ہے۔ گوڑ گاؤں میں بھی جام لگنے کی بنیادی وجہ یہی تھی لیکن یہ کوئی عام جام نہیں تھا۔ یہ ایسا جام تھا جو اس میں پھنسے لوگوں کیلئے کسی قہر سے کم نہیں تھا۔ کہتے ہیں کہ آؤٹ سورسنگ، آٹو اور میڈیکل صنعت کو کروڑوں روپے کی چپت لگ گئی۔ اصل میں ممبئی ۔ چنئی کے بعد بنگلورو اور گوروگرام کی اس طرح کی تباہی کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ ہمارے مستقبل بھی ترقی کے پیمانے اور اسمارٹ شہر بتائے جارہے ہیں۔ انہی کی نقل پر دیش میں 100 اسمارٹ شہر بنانے کی اسکیم ہے۔ ظاہر ہے ان کی اسکیموں میں بنیادی ڈھانچے کا شایدکم از کم خیال رکھا گیا ہے نہ یہ ڈھنگ سے سوچا گیا کہ پانی کی نکاسی کا سسٹم کیسا ہو اور نہ یہ دیکھا گیا کہ ان کی سڑکیں کتنی گاڑیاں گزارنے لائق ہیں۔ وہاں پانی کی نکاسی کے جو قدرتی اور پرانے آبی سیکٹر کے ہیں انہیں بلڈروں کے لالچ نے ہڑپ لیا ہے۔ محض فوری راحت دینے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ آسام کے دورہ پر گئے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سیلاب متاثرین کو معاوضے کا اعلان تو کر آئے لیکن کیا وہ اپنی سرکار کے ذریعے کسی مستقل حل کی سمت میں کوئی قدم اٹھائیں گے۔ اس غیر متوقع صورتحال کو آئی گئی بات مان لینے کے بجائے ا س پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ٹریجڈی سے کیا سبق لیا گیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟