کیا فیٹ ٹیکس جنک فوڈ کو کنٹرول کر سکے گا؟

اکثر بچوں کو اس جنک فوڈ سے بچانے کیلئے سخت قدم اٹھانے کی مانگ اٹھتی رہتی ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کرتا۔ میں نے بھی اسی کالم میں اس بڑھتے مسئلے اور بچوں کی صحت کو بچانے کے لئے کچھ ٹھوس کرنے کی وکالت کی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سمت میں کیرل حکومت نے کچھ ٹھوس قدم اٹھائے ہیں۔ کیرل سرکار نے پیزا، برگر جیسے جنک فو ڈ پر جو’’ فیٹ ٹیکس‘‘ لگایا ہے وہ صحیح سمت میں اٹھایا گیا ایک صحیح قدم مانا جائے گا۔ بچوں کا دل اب دلیا، پوہا یا بریڈ جیسے روایتی ناشتوں میں نہیں لگتا۔ ان کی دیکھا دیکھی بڑے بھی ہفتے میں ایک آدھ پیزا ، برگر کھا ہی لیتے ہیں لیکن شگر اور موٹاپا کے بڑھنے کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ بازار میں ملنے والے اس طرح کے فوری کھانے والی چیزیں بھارت کے لئے عجیب و غریب قسم کی بیماریوں کا سبب بنتے جارہے ہیں۔ نیشنل فیملی ہیلتھ کی ایک سروے رپورٹ بتاتی ہے کیرل دیش کا تیسرا اور پنجاب کا دوسرا ایسے راجیہ ہے جہاں آبادی کا ایک تہائی یا اس سے بھی بڑا حصہ موٹاپے کی مار جھیل رہا ہے۔ ویسے اس سروے کی مانیں تو ’فیٹ ٹیکس‘ سب سے پہلے دہلی میں لگنا چاہئے جہاں تقریباً آدھے لوگ موٹاپے سے پریشان ہیں۔ جنک فوڈ سے بچوں کی صحت پر پڑنے والے مضر اثرات کو دیکھتے ہوئے قومی اطفال اختیارات تحفظ کمیشن نے دیش بھر کے اسکولوں کی کینٹین میں اس طرح کی غذائی چیزوں کی دستیابی پر روک لگانے کے مقصد سے ریاستی ایجوکیشن بورڈ سے کہا ہے کہ وہ سینٹرل سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کی طرح صاف گائڈ لائنس طے کریں اور ان پر تعمیل یقینی کرائیں۔ کمیشن نے اسکولوں سے جنک فوڈ پر پوری طرح روک لگانے کے مقصد سے حال ہی میں سبھی ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام ریاستوں کے شکشا بورڈ و ریاستی اطفال کمیشن کو خط لکھا ہے۔ اس میں اس نے سی بی ایس ای کے تحت آنے والے اسکولوں میں اس سینٹرل بورڈ کی جانب سے طے گائڈ لائنس پر سختی سے تعمیل کرانے کو کہا ہے۔ ہیلتھ لائف طریقے کی عادت بنانا اور کہیں بھی آسانی سے خریدے جانے والے سستے ذائقے دار لیکن بیمار نہ بنانے والے کھانوں کی سمت میں ہمارے دیش میں ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا۔ابھی تک جن دیشوں میں بھی فیٹ ٹیکس لگایا گیا ہے وہاں اس سے ہونے والی آمدنی کو کھانے پینے کی اور صحت بخش چیزوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ جاپان اور ڈینمارک میں کئی سال سے اسی ٹیکس کے ذریعے موٹاپے کے خلاف جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔ کیرل میں صرف جنک فوڈ پر یہ ٹیکس لگایا گیا ہے، لیکن ڈینمارک میں تو موٹاپا بڑھانے والی ہر چیز پر فیٹ ٹیکس نافذ ہے۔ موٹاپے کے معاملے میں بھارت دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اپنے یہاں چاہے موٹاپا ہو یا شگر ہو سب سے زیادہ مار 13سے18 سال کے بچے جھیل رہے ہیں۔ ہمیں اپنی آنے والی پیڑھی کو بچانے کے لئے فوراً قدم اٹھانے ہوں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟