آخر کیوں بند کیا جائے پیلٹ گن کا استعمال؟
جموں وکشمیر میں گزشتہ دنوں اشتعال انگیز مظاہروں اور ہمارے سکیورٹی جوانوں پر پتھر بازی پر خودساختہ لیڈروں اور ہمارے میڈیا کے ایک حصے نے بہت ہائے توبہ مچا رکھی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ پیلٹ گن استعمال پر پابندی لگنی چاہئے؟ ہم پوچھتے ہیں کیوں لگنا چاہئے؟ کیا ہمارے سکیورٹی جوانوں کو اپنی جان بچانے کا اتنا بھی حق نہیں ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جموں و کشمیر میں جاری زبردست احتجاجی مظاہروں اور پتھر پھینکنے کے واقعات میں تقریباً 3500 سکیورٹی جوان زخمی ہوچکے ہیں۔ وزیر مملکت داخلہ ہنسراج اہیر نے بتایا کہ وہاں پر اس سال زبردست مظاہرے اور پتھر پھینکنے کے کل1029 واقعات ہوئے ہیں۔2015ء میں احتجاجی مظاہروں اور پتھر پھینکنے کے کل 730 واقعات ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اہیر نے بتایا کہ 17 جولائی تک جموں و کشمیر میں 152 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 30 جوانوں کی موت ہوئی جبکہ 2015ء میں 2008ء دہشت گردانہ واقعات میں 39 جوانوں کی موت ہوگئی تھی۔ پیلٹ گن کے استعمال پر خاصا تنازعہ کھڑا کیا جارہا ہے۔ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہمارے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ بھی اس دباؤ کا شکار ہوتے لگ رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ پیلٹ گن کے متبادل کے لئے 7 رکنی ممبران کی اسپیشل کمیٹی بنائی جارہی ہے۔ یہ کمیٹی دو مہینے میں اپنی رپورٹ دے گی۔ دو روزہ دورہ پر گئے راجناتھ سنگھ کو بتایا گیا کہ پیلٹ گن کی اسٹیل کی گولی سے جوان ہی نہیں بلکہ چھوٹے بچوں کے جسم کے سافٹ ٹشو اور اعضاء کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ایسا کونسا مشتعل تحریک ہوتی ہے جہاں بے قصور اس کی زد میں نہیں آجاتے۔ جب بھیڑ پتھروں سے مار مار کر اپنے جوانوں کو ادھ مرا کررہی ہو تو کیا انہیں سیلف ڈیفنس کا بھی حق نہیں ہے؟ بھیڑ نے ایک جوان کو پکڑ کر اس کی آنکھ کی پھوڑ دی، کیا یہ سب ہمیں برداشت ہے، قطعی نہیں؟ ہم سی آر پی ایف کے ڈی جی درگا پرساد سے پوری طرح متفق ہیں کہ جب وہ کہتے ہیں کشمیرمیں پیلٹ گن کا استعمال نہیں رکے گا۔ سالانہ پریس کانفرنس میں مسٹر پرساد نے کہا کہ ہم خود خاص حالات میں پیلٹ گن کا استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے زخمی کم سے کم ہوں۔ ہم انہیں زیادہ ضروری حالات میں استعمال کرتے ہیں جب بھیڑ قابو سے باہر ہوجاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سکیورٹی فورس کا اموشن نہ ہونے کیلئے ایسے حالات سے دلائل سے نمٹنے کیلئے ٹرینڈ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیلٹ گن ایک لیتھن ہتھیار (جان لیوا ) نہیں ہے۔ جموں و کشمیر محض ایک ایسی ریاست ہے جہاں جوانوں پر اس طرح کا پتھراؤ کیا جاتا ہے اور ایسے میں جب حالات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں تو جوانوں کو اپنی جان بچانے کے لئے پیلٹ گن کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ڈی جی نے بتایا کہ سبھی سکیورٹی فورس کو ہدایات دی جاتی ہیں کہ کشمیر میں پیلٹ گن کا استعمال کئے جانے کے دوران اسے گھٹنے کے نیچے کے حصے میں چلایا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ جوانوں کو سامنے سے گن کو تب چلانا پڑتا ہے جب مظاہرین قریب آگئے ہوں ایسے میں جان جانے کا اندیشہ بھی انہوں نے بتایا کہ ہم کم سے کم خطرناک زمرے میں آنے والے ایسے دوسرے ہتھیاروں کا بھی تجربہ کررہے ہیں۔ اس میں امریکہ میں استعمال کیا جانے والا ایک ویپن بھی شامل ہے۔ بتادیں کہ یہ پیلٹ گن کیا ہے؟ یہ پمپ کرنے والی بندوق ہوتی ہے جس میں کئی طرح کے کارتوس استعمال ہوتے ہیں۔ کارتوس 1 سے12 رینج میں ہوتے ہیں۔ ایک کو سب سے تیز اور خطرناک مانا جاتا ہے ، اس کا اثر کافی دور تک ہوتا ہے۔ پیلٹ گن سے فائر کئے گئے ایک کارتوس میں 500 تک ربڑ اور پلاسٹک کے چھرے ہو سکتے ہیں۔ فائر کرنے کے بعد کارتوس ہوا میں پھٹتے ہیں اور چھرے ایک جگہ سے چاروں سمت میں جانے لگتے ہیں۔ آخر میں یہ کارگل کے موقعہ پر دہشتگرد برہان وانی کے انکاؤنٹر پر کچھ میڈیا (خودساختہ سیکولر) میں اٹھے سوالوں پر وزیر دفاع منوہر پریکر نے سخت رد عمل ظاہر کیا۔ دہلی میں سابق صدر مرحوم ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی برسی پر انہوں نے بغیر نام لئے ایک چینل پر سوال اٹھایا آخر دیش کے خلاف بولنے کا کیا مطلب ہے؟ ایک آتنکی کے مارے جانے پر کئی چینلوں کے نشریا میں میں نے جو دیکھا وہ صحیح نہیں ہے۔ آخر کوئی کیسے یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ اس کو کیوں مارا؟ اب دہشت گرد کو نہیں ماریں گے تو کس کو ماریں گے؟ ٹی آر پی کے لئے دہشت گردوں کے مارے جانے پر سوال نہ اٹھائیں، دیش کے خلاف جو بھی بولیں گے اسے لوگ پسند نہیں کرتے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں