ہلیری بنام ٹرمپ

امریکہ کی ریاست فلاڈلیفیامیں ڈیموکریٹک پارٹی کانفرنس میں ہلیری کلنٹن کا پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار بننا تاریخ رقم کرنے جیسا ہے۔ تاریخ اس لئے کہ 227 برسوں کی چناوی تاریخ میں ہلیری پہلی بار خاتون صدارتی امیدوار بنی ہیں۔ اب تک ایک بھی خاتون کسی بھی پارٹی کی امیدواری نہیں پا سکی۔ کئی مہینے کی متنازعہ مہم کے بعد اب ڈیمو کریٹک پارٹی کی ہلیری کلنٹن اور ریپبلکن پارٹی کی ڈونلڈ ٹرمپ آمنے سامنے ہوں گے۔ 70 سالہ ٹرمپ نے محض ایک سال پہلے سیاست میں قدم رکھا تھا۔ انہوں نے اپنے 16 ابتدائی حریفوں کو ہرا کر ریپبلکن پارٹی میں دبدبہ قائم کردیا۔ ہلیری ویسے 2008ء میں بھی امیدواری کی دوڑ میں تھیں لیکن براک اوبامہ کی شخصیت کے سامنے وہ شکست خوار ہوگئی تھیں۔ نائب صدارت کے عہدے کے لئے ورجینیا صوبے کے گورنر رہ چکے سینیٹر ٹم کیم ہلیری کے ساتھ ہیں۔ ٹرمپ نے نائب صدر کے عہدے کے لئے انڈیانا صوبے کے گورنر مائک فینس کو چنا ہے۔امریکی روایت کے مطابق نائب صدر کے عہدے کے لئے امیدوار چننے کا کام صدارتی عہدے کے امیدوار کے ذمہ ہوتا ہے۔ یعنی پیس کی شخصیت کا جائزہ لیکر ہلیری اور ٹرمپ کی حکمت عملی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ درحقیقت آئین میں یکسانیت کی بات کرنا اور جنس واد کو مسترد کرنے کا ٹرینڈ دکھنے بھرسے وہ زمین پر نہیں اترتا۔ جدید طریقہ کار کے جمہوریت میں سب سے پرانے مانے جانے والے امریکی جمہوری نظام پر یہ بہت بڑا سوالیہ نشان تھا جسے ہلیری کی امیدواری نے ہٹا دیا ہے۔ حالانکہ یہ تکمیل تک تبھی پہنچے گا جب کوئی خاتون منتخب ہوکر وائٹ ہاؤس تک پہنچ جائے۔ ویسے بھی امریکی خواتین نے سیاست میں مردوں کے برابر حق پانے کے لئے لمبی جدوجہد کی ہے۔ 1920ء میں آئین ترمیم کرکے انہیں ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا جیسے انہوں نے یہ رکاوٹ پار کی ویسے ہی ایک دن وائٹ ہاؤس کا دروازہ بھی ان کے لئے ضرور کھلے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ہلیری کلنٹن کے درمیان مقابلے میں کس کی پوزیشن بہتر ہوگی ابھی یہ کہنا مشکل ہے۔ امریکہ میں ہونے والے عام طور پر جائزوں میں دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے چل رہے ہیں۔ ہلیری کو امریکہ کے لوگ سینیٹر کے طور پر خاتون اول کی شکل میں اور بطور وزیر خارجہ ذمہ داریاں نبھاتے دیکھ چکے ہیں۔ ان کی سمجھ اور کام کرنے کا طریقہ اور نظریہ سب امریکیوں کے لئے جانا ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس معائنہ میں نئے ہیں۔ حالانکہ دہشت گردی اور مسلمانوں کے تئیں انہوں نے جس جارحیت کا ثبوت دیا ہے ان کے حمایتیوں کی تعداد بھی امریکہ میں کافی ہے ورنہ وہ یہاں تک نہیں پہنچ پاتے۔بڑبولے ٹرمپ کے خلاف ہلیری کو مارچ کے مہینے تک11 فیصدی ووٹ کی بڑھت حاصل تھی۔ تب سے لیکر اب تک ٹرمپ کا رویہ رتی بھر نہیں بدلا لیکن وزیر خارجہ رہتے ہلیری کے کام کاج کا کچا چٹھا سامنے آنے کے بعد دونوں میں کانٹے کی ٹکر ہونے کا امکان ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!