محمدعلی دی گریٹسٹ

باکسنگ کی دنیا کے جادو گر محمد علی کلے پاکیسن مرض سے 32 سال لڑنے کے بعد اپنی آخری لڑائی ہار گئے۔ دو دہائی تک باکسنگ ونگ میں راج کرنے والے 74 سال کے اس عظیم امریکی مکہ باز نے جمعہ کو دیرشام ایریزونا کے فنکس میں واقع ہسپتال میں آخری سانس لی۔6فٹ 3 انچ لمبے دنیا کے ہیوی ویٹ باکسنگ چمپئن کی پیدائش 17 جنوری 1942ء کو لوئس ولیم میں ہوئی تھی۔ ان کا بچپن کا نام کے سی ایس کلے تھا لیکن سیاہ فاموں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے کے سی ایس نے 1964 میں اسلام اپنا لیا اور پھر انہیں ’محمد علی‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔ وہ تین بار 1964,1974 اور 1978ء میں ورلڈ ہیوی ویٹ چمپئن بنے۔ علی رنگ کے جتنے تیز اور پھرتیلے اور چاق و چوبند تھے اتنے ہی بلند ان کے خیالات تھے۔ چاہے بات ویتنام جنگ میں شامل ہونے سے انکار کرنے کی ہو، خود کو گریٹسٹ اعلان کرنے کی ہو یا پھر سیاہ فاموں کے حق میں کھڑے ہونے کی ہو، انہوں نے کبھی اپنے قدم پیچھے نہیں کھینچے۔ علی1980ء میں دہلی بھی آئے تھے اور بھارت ہیوی ویٹ باکسر کورسنگھ اور برج موہن سنگھ سے دو دو ہاتھ کئے تھے۔ کور سنگھ کو یاد ہے کہ انہوں نے علی سے چار راؤنڈ کی فائٹ لڑی تھی۔ انہیں لگا علی صحیح سے نہیں لڑ پا رہے ہیں باوجود اس کے وہ ان کے کہیں آس پاس نہیں تھے۔ بعد میں سنگھ نے 1982ء کے ایشیائی کھیلوں میں گولڈ میڈل جیتا۔ امریکہ میں60 سے70 کی دہائی میں نسل پرستی حاوی تھی۔ علی 1960 ء میں روم اولمپک میں گولڈ میڈل جیت کر جبکہ امریکہ میں ایک ریستوراں میں ڈنر کرنے گئے تو ویٹر نے ایک سیاہ فام کا آرڈر لینے سے منع کردیا۔ اس بے عزتی سے دکھی علی نے باہر آکر غصے میں اپنا گولڈ میڈل یہ کہتے ہوئے پھینک دیا کہ جس دیش میں اس قدر نسلی تعصب ہو وہاں کا میڈل مجھے نہیں پہننا۔علی نے مذہبی اعتقادوں اور ویتنام جنگ کے خلاف 1967ء میں امریکی فوج میں بھرتی ہونے کے لئے منع کردیا۔ ان کو اس معاملے میں گرفتار کیا گیا اور ان کا مکہ بازی کا خطاب چھین لیا گیا۔ وہ تین سال لڑ نہیں سکے۔ بعد میں وہ قانونی لڑائی جیتے ۔ محمد علی نے ’دی گریٹسٹ‘ یعنی ’عظیم‘ کا خطاب بھلے ہی باکسنگ میں اپنی مہارت کی بدولت حاصل کیا ہو لیکن ان کی زندگی اور شخصیت میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ایسا تھا جو انہیں اس خطاب کا حقدار بناتا تھا۔ علی 9 سال تک باکسنگ رنگ میں نہیں اترے لیکن کبھی بھی وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ آج جب امریکہ میں سیاہ فام اور گوروں کے درمیان خلیج چوڑی ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور بھارت میں بھی بات بات پر ملک دشمنی کا ٹھپہ لگنے کا ٹرینڈ تیز ہو رہا ہے تب محمد علی کی زندگی اور جدوجہد سے سبھی کو تلقین حاصل کرنی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!