متھرا کی اس کنس لیلا میں بھاری قیمت چکانی پڑی

کلیگ کے کنس نے متھرا کی سرزمیں پر ایسا خونی کھیل کھیلا جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ اس میں ہم نے پولیس کے دو جوانوں کو کھودیا۔ یوں تو قبضہ ہٹانے کے سلسلے میں پولیس فورس کا استعمال پرتشدد احتجاج کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی لیکن اترپردیش کے متھرا کے جواہر باغ کے ناجائز قبضے داروں کو ہٹانے کی جیسی قیمت چکانی پڑی اس کی دوسری مثال شاید ہی ملے۔ قبضہ ہٹانے پر پولیس ٹیم پر قبضہ داروں نے حملہ کردیا،دستی گولے پھینکے، گولیاں چلائیں۔ قبضہ داروں کو ہٹانے کے لئے پولیس ٹیم کے لیڈر ایس پی سٹی مکل دویدی کی موت گولی سے نہیں ہوئی ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ رام برکش یادو اور ان کے غنڈوں نے دویدی کو چاروں طرف سے گھیر کر لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں آیا ہے کہ ایس پی سٹی کے سر کی کئی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں وہیں ان کے جسم کے کئی حصے میں گہری چوٹ کے نشان پائے گئے۔ متھرا میں جے گورو دیو سنگٹھن سے نکلے بھارت ودھک سنگھ کے مبینہ ستیہ گرہیوں نے قریب دو سال پہلے متھرا کے جواہر پارک پر قبضہ کیا ہوا تھا جو کہ محکمہ باغبانی کی جائیداد ہے۔ ہائیکورٹ کے حکم کے بعد قبضہ ہٹانے کے لئے پولیس ایک ٹکڑی بدھوار کی شام جواہر باغ کی ٹوہ لینے گئی تھی تو ستیہ گرہیوں نے اس پر بم اور گولیوں سے حملہ کردیا۔ پولیس کو ایسے تشدد کی کوئی امید نہ تھی اور ایس پی سٹی اور تھانہ انچارج مارے گئے۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں 22 لوگوں کی موت ہوگئی اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ سمجھنا مشکل ہے کہ پولیس نے اتنی لاپروائی کیوں برتی جبکہ یہی لوگ پہلے بھی اس پر حملہ کرچکے تھے۔ انتظامیہ نے 15 فروری 2015ء کو ہی رپورٹ بھیج کر کہہ دیا تھا کہ قبضہ داروں کے پاس اسلحہ ہے یہ لوگ کبھی بھی ماحول بگاڑ سکتے ہیں۔ حالات کبھی بھی خراب ہوسکتے ہیں مگر پولیس اور انتظامیہ کی اس مشترکہ رپورٹ پر حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ جواہر باغ خالی کرانے کی کوشش کافی عرصے سے چل رہی تھی۔ خفیہ محکمہ بھی اس مسئلے پر سرکار کو رپورٹ دیتا رہا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ آزاد بھارت ودھک ستیہ گرہ اور سوادھین بھارت سبھاش سینا کے بینر تلے کئی لوگ رام برکش یادو کی لیڈر شپ میں سرکاری جواہر باغ میں پلاسٹک کی پٹیوں سے جھونپڑیاں تیار کررہے ہیں یہ لوگ بابا جے گورو دیو کی موت کا ثبوت نامہ، سوادھین بھارت کی کرنسی نافذ کرنے اور ایک روپے میں 60 لیٹر ڈیزل دینے کی مانگ کرتے ہیں۔ ضلع افسر نے چیف سکریٹری کو اس خط میں یہ بھی بتایا تھا کہ ان لوگوں کی تعداد 5 سے6 ہزار تک ہے اور اس کے پاس ناجائز اسلحہ بھی ہے جن کا استعمال وہ کرسکتے ہیں۔ جواہر باغ کو رام برکش یادونے چھاؤنی میں تبدیل کرلیا تھا اوراس کی مرضی کے بغیر کوئی باغ میں آ جا نہیں سکتا تھا، پولیس بھی نہیں۔ اس کی دہشت ایسی تھی کہ باغ میں موجود ضلع باغبانی افسر و اراضی تحفظ افسر ، ضلع زرعی افسر اپنے دفتر اور سرکاری گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔باغ کا داخلہ گیٹ ایس پی کے دفتر سے ملا ہوا تھا۔ایسا نہیں کہ متھرا کے ایس پی سٹی مکل دویدی کو خطرے کا احساس نہیں تھا۔ ان کے پاس ایک جانکاری پہنچی تھی کہ احتجاجیوں کے پاس نہ صرف اے کے۔47 ہے بلکہ جواہر باغ میں بارودی سرنگیں بھی بچھائی گئی ہیں۔ پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ انہیں افسروں نے ہدایت دی تھی کہ جواہر باغ کو جمعرات تک خالی کرانا ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ پولیس گولی نہ چلائے ورنہ معطل کردیا جائے گا۔ مکل نے یہ بات اپنے قریبیوں کو سمجھا دی تھی۔ ان لوگوں میں سے ایک نے بتایاکہ وہ بہت کشیدگی میں تھے جب جواہر باغ پہنچے تو بہت کم فورس تھی ان کے پاس باڈی پروٹیکٹر اور بلٹ پروف جیکٹ بھی بہت کم تھے، اسی کا نتیجہ رہا کہ ان کی اس حادثے میں موت ہوگئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک 70 سال کا آدمی دو سال تک بم اور طمنچے، گولہ بارود کی طاقت پر پورے دیش کو چنوتی دیتا رہے اور سرکاروں کو بھنک نہیں لگے؟کھلے عام کلیکٹریکٹ کی دیواروں پر خود کی کرنسی نہ ماننے والوں کو دیش چھوڑنے کا فرمان دے اور پرارتھنا کی شکل میں صبح شام بھارت مخالف گیت گائے گئے، پھر بھی نہ پولیس کو پتہ چلے اور نہ ہی آئی بی، سی آئی ڈی کو؟ ناممکن یہ صرف ایک تشدد کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ دیش کی سلامتی سے بیحد سنگین معاملہ ہے۔ بغیر سیاسی سرپرستی کے کسی کی مجال نہیں کے وہ اپنا خودساختہ اقتدار قائم کرلے، سینکڑوں ایکڑ زمین قبضہ لے اور بھاری بھرکم ہتھیار جمع کرلے اور کوئی کارروائی نہ ہو؟ جب جانباز پولیس والے اس آتنکی فوج سے لڑرہے تھے تو لکھنؤ میں بیٹھے حکومت نے فوری کارروائی کے احکامات کیوں نہیں دئے؟ ریاست کے وزیر شیو پال یادو کا نام کیوں آرہا ہے؟ کیا اکھلیش سرکار نے جان بوجھ کر اس آتنکی کو پنپنے دیا؟ یا پھر انہیں کچھ پتہ نہیں تھا؟ دونوں ہی صورت میں سرکار اور انتظامیہ ناکارہ ثابت ہورہی ہے۔ جس صوبے میں اگلے سال اسمبلی چناؤ ہونے والے ہیں اس کے ایک بیحدحساس ترین شہر میں ہتھیاروں کے ذخیرے پر پولیس انتظامیہ کی لاچاری بہت کچھ بیاں کردیتی ہے۔ تنظیم کی آڑ میں کچھ لوگ اپنی دبنگئی قائم کرنے اور سرکاری املاک پر قبضہ کرنے کی فراق میں تھے۔ متھرا کا یہ واقعہ اکیلا نہیں ہے دیش میں نہ جانے کتنے چالاک لوگ ادھیاتم کے نام پر اپنا سامراجیہ چلا رہے ہیں۔ ان ڈیروں میں بڑھتے ہتھیاروں کا جماوڑہ بھی تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟