جے گورو دیو اور ان کے تین چیلوں کی پوری کہانی

متھرا کی پوتر سرزمیں کو خونی لڑائی کا میدان جنگ میں بدل دینے والے رام برکش کی کہانی دراصل اس کے گورو رہے جے گورودیو اور ان کی وراثت سے جڑی ہوئی ہے۔جے گورو دیو کے ٹرسٹ اور ان کی جانشینی کو لیکر الہ آباد ہائی کورٹ میں چلے لمبے تنازعہ میں حقائق چونکانے والے ہیں۔ سنت مت کے تپسوی جے گورو دیو کا اصلی نام تلسی داس مہاراج تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جے گورو دیو نے اپنے جیتے جی ملک و بیرون ملک میں لاکھوں انویائیوں کے ساتھ ساتھ تقریباً15 ہزار کروڑ کی جائیداد بنائی اور ان کے 250 سے زیادہ آشرم ،3 مذہبی اور چیریٹیبل ٹرسٹ قائم کئے۔ مئی 2012ء میں ان کی موت تو ہوئی ان سب پر دعوی کرنے کے لئے 3 نام سامنے آئے ان میں سے ایک تھا رام برکش یادو۔ جے گورو دیو کی موت کے بعد متھرا کے ان کے آشرم میں13 ویں پر بھنڈارے کے فوراً بعد ان کے ششیہ پھول سنگھ نے ایک خط ممبران کو پیش کیا ۔ اس میں بتایا گیا کہ جے گورو دیو نے پنکج کمار یادو کو ٹرسٹ کا چیئرمین مقرر کیا ہے۔ پنکج ہی ان کی ڈرائیور تھا اور بعد میں قریبی ہوگیا۔ اس نے ہی جے گورو دیو کی چتا کو آگ دی تھی۔ بعد میں اور دعویدار سامنے آئے اور جے گورو دیو کی جانشینی کا تنازعہ متھرا ضلع عدالت و الہ آباد ہائی کورٹ جا پہنچا۔ پنکج یادو نے ڈپٹی رجسٹرار کے سامنے دعوی کیا کہ جے گورو دیو نے انہی ہی چیئرمین نامزدکیا تھا۔ پنکج کو ٹرسٹ کا چیئرمین بنائے جانے کو جے گورو دیو کے دوسرے ششیہ اما کانت تیواری نے تسلیم ہیں کیا۔ اس نے خود کو چیئرمین کی شکل میں مخاطب کروانا شروع کردیا اور اجمیر میں ایک دھرم سبھا میں خود کو قانونی طور سے چیئرمین کی شکل میں پیش کیا۔جب معاملہ ہائی کورٹ پہنچا تو اما کانت نے بھی ایک فہرست ڈپٹی رجسٹرار کے سامنے پیش کی جس میں خود کو جے گورودیو دھرم کا پرچارک تنظیم کا صدر بتایا۔ جانشینی کے تنازعہ میں تیسری کڑی رام برکش یادو تھی۔ وہ1980ء میں جے گورو دیو کے رابطے میں آیا اور بابا کی دوردرشی پارٹی سے غازی پور سے چناؤلڑا مگر ہار گیا۔ متھرا میں جے گورو دیو دھرم پرچارک سنستھا کے ساتھ کام کرنے کے دوران 2006 ء میں اس کے جارحانہ برتاؤ کی شکایت جے گورو دیو کے پاس پہنچی ، اس پر اسے سنستھا سے ہٹا دیا گیا۔تب رام برکش نے سوادھین بھارت سنگٹھن بنایا۔ جے گورو دیو کی موت کے بعد اپنے حمایتیوں کی طاقت پر خود کو ان کے جانشین کے طور پر دیکھنے لگا۔ ان کے حمایتیوں میں زیادہ تر جے گورو دیو کے انویائی تھے۔ اپنی جبراً مانگوں کو منوانے کیلئے وہ ’سوادھین بھارت ودھک ستیہ گرہ‘ کرنے کے نام پر کئی حمایتیوں کو مدھیہ پردیش سے لاکر 11 جنوری 2014ء کو دہلی کے لئے چلا۔ مہاراشٹر، گجرات، راجستھان ہوتے ہوئے متھرا پہنچا اور جواہر باغ میں آکر جم گیا۔ یہاں جے گورودیو کے انویائی رام برکش سے جڑتے گئے اور پونے تین سو ایکڑ کے جواہر باغ میں پورا گاؤں بسادیا۔جانشینی کے اس پورے تنازعہ میں کہیں نہ کہیں جے گورو دیو کے ذریعے اکھٹی کی گئی پراپرٹی اور پیسے کی رغبت بھی تھی۔2012ء میں جے گورو دیو کی موت کے بعد میڈیا رپورٹ میں سامنے آئی معلومات کے مطابق ٹرسٹ کے پاس12 ہزار کروڑ اور 15 ہزار کروڑ کے درمیان املاک تھی۔ وہیں بینکوں میں ٹرسٹ کے 100 کروڑ روپے جمع تھے۔ دوسری طرف جے گورو دیو کی کاروں کے بیڑے میں بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز بینچ سمیت 250 کاریں شامل ہیں ان کی قیمت150 کروڑ روپے بتائی گئی ہے۔ جواہر باغ میں قبضہ جمائے بیٹھے لوگوں کی قیادت کرنے والے رام برکش یادو کا بریڈ روم کسی راجہ سے کم نہیں تھا۔ اس نے ضلع باغبانی افسر کو بھگا کر ان کی رہائش گاہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس رہائش گاہ کو اس نے اپنی آرام گاہ بنا لیا تھا۔اس گھر میں اس کے لئے سوئمنگ پول کا بھی انتظام تھا۔ مکان میں بنے بیڈ روم میں اے سی لگا تھا۔ڈبل بیڈ پر اچھی کمپنی کے گدے پڑے ہوئے تھے۔ ڈریسنگ ٹیبل پر برانڈڈ تیل اور پرفیوم وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔بیڈ روم میں کئی طرح کے اچار کے ڈبے بھی تھے۔ مکان کے باہر تیار سوئمنگ پول میں وہ نہایا کرتا تھا۔ ایک چونکانے والی حقیقت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ رام برکش یادو 3 ہزار لوگوں کا پورا خرچ یوں ہی نہیں اٹھاتا رہا۔ اس کے اڑیسہ، جارکھنڈ، چھتیس گڑھ کے نکسلیوں سے روابط تھے ۔ وہاں سے لاکھوں کی رقم ہر مہینے اس کے لئے آتی تھی۔جواہر باغ میں رہنے والے قبضہ داروں کو وہ کمانڈر کی طرح ہدایت دیاکرتا تھا۔ جواہر باغ کے اندر بھنڈار گرہ میں پولیس کو ایک بھیگا اور موٹا رجسٹر ملا تو اس میں رام برکش یادو اور اس کی مبینہ آزاد ہند سرکار کو ملنے والی اقتصادی مدد اور خرچ کی پوری تفصیل درج تھی۔ اس میں اڑیسہ کے رنگ لال راٹھور سے ہر ماہ 22 لاکھ روپے ملنا درج ہے۔بنارس کے نارائن سنگھ سے 10 لاکھ روپے، قنوج کے مان سنگھ سے 7 لاکھ روپے اور اناؤ کے ایک شخص سے 8 لاکھ روپے سے زیادہ رقم ملنے کی تفصیل بھی درج ہے۔ اس کے علاوہ نکسلی متاثرہ شہروں میں اڑیسہ ، جھارکھنڈ اور ساردھا کی پہاڑیوں میں واقع نکسلی علاقہ کے درجنوں لوگوں کے نام اور لاکھوں کی رقم کے بھنڈارے کے نام کی تفصیل درج ہے۔ جواہر باغ کا ماسٹر مائنڈ رام برکش 22 لاکھ کی پزیرو گاڑی میں باہر نکلتا تھا ساتھ ہی 5سے7 گاڑیوں کے قافلے میں 24 سے زیادہ لوگ ہوا کرتے تھے۔ یہ معاملہ صرف ناجائز قبضے کا نہیں ہے اس کے پیچھے بہت کچھ چھپا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟