14 سال دیری سے ہی صحیح گلبرگہ سوسائٹی فیصلہ

آخرکار 14 سال بعد ہی صحیح گجرات کے 2002ء کے دنگوں کے سب سے زیادہ سرخیوں میں چھائے معاملوں میں سے ایک گلبرگہ سوسائٹی میں ہوئے قتل عام کیس میں فیصلہ آہی گیا۔ گجرات میں گودھرا کے بعد 27 فروری 2002ء کو 59 لوگوں کو زندہ ریلوے بوگی میں جلانے کے بعد چمن پورہ علاقہ میں واقع گلبرگہ سوسائٹی پر 20 ہزار لوگوں نے حملہ بول دیا تھا۔ جس میں69 لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ 39 لاشیں تو برآمد ہوگئی تھیں جبکہ کانگریس کے سابق ایم پی احسان جعفری و 14 سال کے ایک بچے اظہر مالی سمیت 31 لوگ لاپتہ ہوگئے تھے۔ 7 سال بعد ان 31 میں سے30 کو مردہ قرار دے دیا گیا اور مظفر شیخ 2008ء میں زندہ ملے۔ ان کو ایک ہندو خاندان نے پالا اور نام وویک رکھا۔ یہ دنگا اس وقت کے گجرات کے حالات کو سمجھنے کے لئے کافی ہے، جہاں گلبرگہ سوسائٹی سمیت9 بڑے معاملوں کی جانچ سپریم کورٹ نے ایس آئی ٹی کے ذریعے اپنی نگرانی میں لے لی تھی۔14 سال دیری کے بعد ایک خصوصی عدالت نے تشدد اور قتل کی ایک خوفناک واردات کے لئے 24 لوگوں کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔ اس معاملے کے قصورواروں میں 11 پر قتل کا جرم ثابت ہوا ہے۔ وشو ہندو پریشد کے لیڈر اتل وید سمیت باقی 13 کو دیگر الزامات میں بری کردیا گیا ہے۔ اسپیشل سرکاری وکیل نے کہا کہ ہم 11 قصورواروں کے لئے موت جبکہ 13 قصورواروں کے لئے 10-12 سال جیل کی مانگ کریں گے۔سزا کتنی ہوگی اس کا اعلان 6 جون یعنی پیر کو ہونے والا ہے۔ عدالت نے 36 ملزمان کو بری کردیا۔ ان میں بی جے پی کے کونسلر وپن پٹیل، کانگریس کے کونسلر مید سنگھ چودھری اور گلبرگہ سوسائٹی علاقہ کے اس وقت کے پولیس انسپکٹر رہے کے ۔ جی۔ اریڈا بھی شامل ہیں۔ جمعرات کو فیصلہ سنانے میں جج ٹی۔ وی۔ ڈیسائی نے محض 20 منٹ کا وقت لیا۔ سب سے پہلے بری کئے گئے ملزمان کے نام پکارے اور کہا آپ سب کھڑے ہوجائیں۔ میں آپ کے چہرے پر ہنسی دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے قصورواروں کے نام لئے اور کہا کہ ان کی سزا کا اعلان 6 جون کو کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد2002ء کے گجرات دنگوں کے9 میں سے8 معاملوں میں فیصلہ آچکے ہیں۔ اب صرف ایک نروڈہ گاؤں کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ ان دنگوں میں اپنا سب کچھ گنوا چکے لوگوں کو لمبی قانونی لڑائی لڑنی پڑی اور کہا نہیں جاسکتا ان کی لڑائی ختم ہوگئی ہے ۔ خاص طور سے اس لئے کیونکہ عدالت نے اس علاقہ کے بھاجپا کونسلر وپن پٹیل سمیت36 لوگوں کو بری کردیا ہے۔ دوسری طرف جن لوگوں کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے وہ بھی اس فیصلے کو چیلنج کرسکتے ہیں۔ آخر کار متاثرین کو انصاف ملا لیکن اگر فیصلہ آنے میں اتنی زیادہ دیری نہیں ہوتی تو شاید متاثرین کو زیادہ تشفی ہوتی اور ساتھ ہی فیصلے کا اثر بھی کہیں زیادہ ہوتا۔ یہ فطری ہے کہ اس فیصلے سے سبھی مطمئن نہیں اور ناراضگی کی وجہ یہ ہے ایک تو عدالت نے 24 میں سے11 لوگوں کو ہی قتل کا قصوروار پایا ہے اور 36 ملزمان کو بری کیا ہے۔ دوسرے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ واردات کے پیچھے کوئی مجرمانہ سازش تھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اونچی عدالتیں ،اسپیشل عدالت کے فیصلے میں کوئی ردوبدل کی ضرورت محسوس کرتی ہیں یا نہیں؟ جو بھی ہو ، زیادہ ضروری یہ ہے کہ بڑی عدالتوں کا فیصلہ آنے میں اور زیادہ دیری نہ ہو۔ اس وقت گجرات کے وزیر اعلی ہونے کے ناطے فطری طور سے نریندر مودی سب کے نشانے پر تھے اور جعفری کی بیوی زکیہ جعفری نے انہیں بھی ملزم بنائے جانے کی عرضی دائر کی تھی لیکن ایس آئی ٹی نے مودی کو کلین چٹ دے دی۔ اس فیصلہ کی چاہے جیسے بھی تشریح کی جائے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ گجرات میں تشدد اور قتل کی جو سنگین وارداتیں ہوئی تھیں ان میں سے8کا فیصلہ آچکا ہے۔ اس پر تعجب نہیں کہ گلبرگہ سوسائٹی کے اس واقعہ پر خصوصی عدالت کا فیصلہ آتے ہی سیاسی رد عمل کا دور بھی شروع ہوگیا ہے اور کچھ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ گلبرگہ قتل عام سمیت جو دیگر سنگین واقعات رو نما ہوئے ان کی سازش اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی طرف سے ہی رچی گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی کی ہی طرف ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنا چاہتے ہیں کہ گلبرگہ معاملہ میں اسپیشل جانچ ٹیم کی طرف سے نریندر مودی سے بھی پوچھ تاچھ کی گئی تھی اور اس نے یہ بھی پایا تھا کہ دنگے کے اس واقعہ اور دیگر واقعات میں ان کا کوئی رول نہیں تھا۔ ایس آئی ٹی کے اس نتیجے پر دیش کی سب سے بڑی عدالت نے بھی اپنی مہر لگائی تھی لیکن مودی مخالف لابی اسے ماننے کو تیار نہیں اور اب بھی کہہ رہی ہے کہ دنگے اس وقت کی سرکار کی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہیں۔ نریندر مودی کی میڈیا ٹرائل بھی 14 سال سے چل رہی ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ کوئی بھی گودھرا میں مارے گئے درجنوں کارسیوکوں کو زندہ جلانے کے انتہائی تکلیف دہ واقعہ پر بحث نہیں کرنا چاہتا۔ یہ حقیقت سبھی کو دھیان میں رکھنا چاہئے کہ ہمارے دیش میں دنگوں کے قصورواروں کو مشکل سے ہی سزا سنائی جاتی ہے۔گجرات دنگوں سے کہیں زیادہ سنگین 1984ء کے سکھ دنگے تھے اور یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور توقع سے کم ہی لوگوں کو سزا سنائی گئی ہے۔ شاید یہ ہمارے سسٹم کی خامی ہے کہ کئی بار پورے سماج کو یہ اشو قانون کی نظر میں سچ ثابت ہونے میں محروم رہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟