سوئٹزرلینڈ نے کہانہیں چاہئے کام کے بدلے مفت میں پیسہ

بنا کچھ کئے اور دئے اگر آپ کے کھاتے میں ہر مہینے قریب ڈیڑھ لاکھ روپے ڈالے جائیں، تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا؟ سوئٹزر لینڈ میں قریب ڈیڑھ سال سے ایک کمپین چل رہی تھی جس میں مانگ کی جارہی تھی کہ دیش کے سبھی لوگوں کو سرکار کم از کم تنخواہ کی شکل میں ہر ماہ قریب ڈیڑھ لاکھ روپے دئے جائیں۔ بچوں کے لئے قریب42 ہزار روپے اور بڑوں کے لئے 171 لاکھ روپے مہینہ ہو۔ اسے نام دیا ’’یونیورسل بیسک انکم‘‘۔ مانگ نے زور پکڑا اور حمایت میں 1 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دستخط کردئے۔ سوئٹزرلینڈ میں قاعدہ ہے کہ کسی کمپین کی حمایت میں اگر 1 لاکھ سے زیادہ شہری دستخط کردیں تو ووٹنگ کرائی جائے۔ آخر کار ایتوار کو اس طرح اس پہلی رائے شماری کے لئے سوئس عوام نے ووٹ کیا اور شام تک نتیجے آبھی گئے۔ اس کے جو نتیجے آئے وہ بہت چونکانے والے ہوسکتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے 78فیصدی لوگوں نے اس عجیب تجویز کو مسترد کردیا۔ صرف22 لوگوں نے تجویز کی حمایت کی۔اس طرح یہ تجویز خارج ہوگئی۔ ایسی مانگ کو اٹھا کر ووٹنگ کرانے والا سوئٹزرلینڈ دنیا کا پہلا ملک ہے۔ اگر تجویز پاس ہوجاتی تو سرکار کو ہر مہینے دیش کے سبھی شہریوں اور پانچ سال سے یہاں رہ رہے غیر ملکیوں کو جنہوں نے وہاں کی شہریت لے لی ہے، بیسک سیلری دینی ہوتی۔ اس مہم کو چلانے والوں کی دلیل تھی کہ دیش میں زیادہ تررو بو کام کررہے ہیں اور فیکٹریاں بھی آٹومیٹک ہوچکی ہیں ایسے میں دیش میں کام کی کمی ہوتی جارہی ہے۔ لوگ بے روزگار ہورہے ہیں۔ کام کم ہونے سے دیش میں غریبی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ ’’یونیورسل بیسک انکم‘‘ لاگو ہونے سے اس پر روک لگے۔ دیش میں 50 فیصدی سے زیادہ کام مفت میں ہوتا ہے۔
بیسک انکم ملنے سے لوگوں کو گھر پریوار کی دیکھ بھال کرنے میں آسانی ہوگی۔ ساتھ ہی سماج میں تبدیلی لانے میں بھی کارگر ثابت ہوگی۔اس کے برعکس تجویز کے مخالفین کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے تو کام کرنے والے بھی مفت کی کھانے لگیں گے۔ سوئٹزرلینڈ کی زیادہ تر سیاسی پارٹیاں بھی اس مہم کے خلاف کھڑی ہوگئیں۔ ایسی تجویز سے معیشت بگڑ جائے گی۔ اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ بغیر کچھ کئے اگر لوگوں کو ہر ماہ ڈیڑھ لاکھ روپے کی سیلری ملنے لگے گی تو وہ واقعی کچھ کام نہیں کریں گے۔ لوگ نوکریاں چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں گے۔ یہ سماج کے لئے برا ہوگا۔ اگر سوئٹزرلینڈ ٹاپو ہوتا تو ایسا کربھی دیتے۔ یہ قاعدہ لاگو ہوگیا تو دنیا بھر کے لوگ سرحد پار کر یہاں آنے لگیں گے اور پانچ سال رہیں گے اور اس کے بعد بیسک سیلری کی مانگ کرنے لگیں گے۔ حالانکہ سوئس حکومت کے ساتھ ماہرین بھی اس تجویز کی مخالفت میں کھڑے تھے۔ ہیں نہ کام کے لوگ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!