اپولو میں کڈنی ریکٹ کا سنسنی خیز پردہ فاش

روپیوں کا لالچ دے کر غریب کی کڈنی امیر لوگوں کے جسم میں لگوانے والے کڈنی ریکٹ کا پردہ فاش کرتے ہوئے دہلی پولیس کے 5 لوگوں کو گرفتار کرنے کی خبر چونکانے والی ہے۔اس سے بھی زیادہ چونکانے والی بات یہ ہے کہ اس کڈنی ریکٹ میں اپولو جیسے نامی گرامی ہسپتال کے دو معاون اسٹاف کی شمولیت پائی گئی ہے۔ اپولو ہسپتال میں پکڑے گئے اس کڈنی ریکٹ میں پچھلے چھ مہینوں میں پانچ معاملوں کا ریکارڈ مل چکا ہے۔ویسٹ بنگال اور کانپور سے غریب لوگوں کو دہلی لاکر ان کے فرضی دستاویز تیار کر امیر لوگوں کو کڈنی بیچی جاتی رہی تھی۔ گرفتار ہسپتال کے دو معاون اسٹاف کی پہچان ادتیہ سنگھ اور سیلیش سکسینہ کی شکل میں ہوئی ہے۔ دونوں ملزم اپولو ہسپتال میں بطور کنسلٹنٹ ڈاکٹر کے نجی معاون کے طور پر کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ گرفتار کئے گئے تین ملزمان کی پہچان عاصم سکندر(37 سال)، ستیہ پرکاش (30 سال) اور دیو آشیش مولی (30 سال ) کے طور پر ہوئی ہے۔ جنوب مشرقی رینج کے پولیس کمشنر آر پی اپادھیائے نے بتایا کہ 30 مئی کو سریتا وہار تھانہ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ پیسے کا لالچ دے کر ایک گروہ لوگوں کو کڈنی ڈونیٹ کرنے کے لئے تیار کرتا ہے۔ فرضی دستاویزات کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے کہ کڈنی ڈونر اور مریض ایک ہی خاندان کے فرد ہیں۔ جانچ میں اپولو ہسپتال کے اسٹاف کے چامل ہونے کی بھی بات آئی۔2 جون کو ڈونر اور مریض کے درمیان ملاقات کی اطلاع کی بنیاد پر پولیس نے چھاپہ ماری کر ستیندر، ستیہ پرکاش اور مولی کو گرفتار کیا۔ ٹرانس پلانٹ کے لئے کڈنی دستیاب کرانے کے عوض مریض کے رشتے داروں کو20 سے25 لاکھ روپے وصولے جاتے تھے۔ وہیں ان پیسوں میں سے محض 3-4 لاکھ روپے کڈنی ڈونیٹ کرنے والے شخص کو دے دئے جاتے تھے۔ اپولو ہسپتال میں کڈنی کا علاج کروا رہے ایسے مریضوں پر ادتیہ اور شیلیش کی نگاہ رہتی تھی۔ ان کی جانکاری ملزم کڈنی ریکٹ میں سرگرم افراد کو دے دیتے تھے جو کڈنی مریض کے رشتہ داروں سے رابطہ قائم کرسودے بازی میں لگ جاتے تھے۔ اپولوہسپتال نے پولیس کی جانچ میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین کا کہنا ہے کہ انہیں میڈیا کے ذریعے اطلاع ملی جس میں پتہ چلا ہے کہ اپولو میں اس معاملے کو لیکر گرفتاریاں ہوئی ہیں اور کہا کہ آرگن ٹرانسپلانٹ کی اجازت نہیں دیتا۔ اس معاملے سے جڑے سبھی لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ دہلی، یوپی، پنجاب، مغربی بنگال، تاملناڈو میں بھی یہ دھندہ چل رہا ہے۔ عموماً آرگن ٹرانسپلانٹ ایکٹ 1994 کے مطابق صرف خون کے رشتے والے ہی ایک دوسرے کو اپنا آرگن ڈونیٹ کرسکتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟