یعقوب دیش دروہی تھا ، اسے موت کی سزاہی ملنی تھی

یعقوب میمن کی پھانسی کے حق اور مخالفت میں ظاہر کی جارہیں دلیلوں نے دیش کے غیر جانبدار سماج کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کیا دہشت گردی اور قوم دشمنی بھی اب گندی سیاست کے کھیل کے ہتھکنڈوں میں شامل ہوجائیں گے؟ پھانسی کی مخالفت کرنے والے اگر اس بنا پر مخالفت کرتے ہیں کہ دیش سے سزائے موت ختم ہوجانی چاہئے تو اس پر بحث ہوسکتی ہے، لیکن اس بنیاد پر بحث ہوکہ جرائم پیشہ کسی مذہب خاص سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اسے نشانہ بنایا جارہا ہے ، سراسر غلط ہے۔ یعقوب میمن ایک دہشت گرد تھا ۔1993 کے بم دھماکوں میں کیا اس کے ساتھیوں نے یہ دیکھ کر دھماکے کئے تھے کہ مرنے والوں کا مذہب کیا ہے؟ یعقوب میمن کو قانونی نقطہ نظر سے جتنے موقعے دئے گئے اتنے شاید کسی دیش دروہی کو نہیں دئے گئے۔ سپریم کورٹ آدھی رات کو بھی بیٹھی تاکہ کوئی بعد میں یہ نہ کہہ سکے کہ سزا پائے گئے شخص کو انصاف نہیں ملا۔ سپریم کورٹ نے 21 مارچ 2013 کو اس معاملے میں اپنا 792 صفحات پر مبنی فیصلہ سنایا تھا۔ ان 792 صفحات کے فیصلے میں اکیلے یعقوب میمن اور اس کی اس بم دھماکوں میں سانجھے داری پر تقریباً300 صفحات تھے۔ بصد احترام عدالت نے یہاں تک کہا یعقوب میمن ماسٹر مائنڈ ہے۔ یہ سازش میں پوری طرح شامل ہے۔ ہندوستان میں پہلی بار استعمال آر ڈی ایکس کو اس نے چھپایا ہے۔اسے حوالہ کے ذریعے ٹائیگر میمن، داؤد ابراہیم و آئی ایس آئی نے پیسے بھیجے۔ اس نے 15 آدمیوں کو بم رکھنے کیلئے اکٹھا کرکے انہیں دوبئی ٹریننگ کیلئے بھیجا۔ جب وہ واپس آئے تو اس نے پرانی گاڑیاں خریدیں اور ان میں بم رکھوائے اور ان کو ممبئی کے کون کون سے مقامات پر رکھنا ہے یہ طے کیا۔ جو15 آدمی دوبئی گئے تھے ان کے پاسپورٹ ،ویزا کا یعقوب نے ہی انتظام کیا تھا۔ اس پر تو بحث ہوسکتی ہے کہ دیش میں سزائے موت ختم ہونی چاہئے یا نہیں لیکن یعقوب میمن بے قصور تھا یہ کوئی نہیں مانتا۔ جو 40 خود ساختہ دانشور اور دکھاوٹی سیکولرسٹ یعقوب کو تاعمر قید کی وکالت کررہے تھے وہ بھی یہ مانتے تھے کہ یعقوب قصوروار ہے لیکن اسے سزا زیادہ دی جارہی ہے اور اس کے گناہوں کے لئے اسے سزائے موت نہیں عمر قید ہونی چاہئے ، وہ بھی یہ تو مانتے ہیں کہ یعقوب میمن قصوروار تھا اور اس نے غلطی کی تھی۔ یہ بھی دلیل دی جارہی تھی کہ یعقوب کو بھارت کی خفیہ ایجنسی را ایک معاہدے کے تحت دہلی لیکر آئی تھی۔ سورگیہ رمن کے آرٹیکل کا حوالہ دیا جارہا ہے انہوں نے اس میں بتایا کہ میمن نے سرنڈر کیاتھا اور اسے اس یقین دہانی پر لایا گیا تھا کہ سزائے موت نہیں دی جائے گی۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق یعقوب میمن پاکستان میں رہنے سے تنگ آچکا تھا اس لئے وہ کاٹھمنڈو اپنے وکیل سے ملنے آیا تھا یہ امکان تلاشنے اور وکیل سے غور کرنے کے لئے کیا وہ بھارت واپس آسکتا ہے اور بھارت سرکار سے کسی طرح کا سمجھوتہ ہوسکتا ہے؟ اس کے وکیل نے اسے ایسا کرنے سے روکا اور کہا کہ آپ پاکستان میں ہی محفوظ ہیں۔ بھارت ابھی نہیں آسکتے۔ یعقوب میمن واپس کراچی جارہا تھا کہ نیپال پولیس نے اسے گرفتار کرلیا اور بعد میں بھارت کو سونپ دیا۔ یعقوب میمن نے کوئی سرنڈر نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی طرح کی بھارت سرکار نے اس سے کوئی ڈیل کی تھی۔ یہ دلیل غلط ہے کہ اسے دھوکہ دیاگیا۔
سورگیہ رمن تو ویسے بھی ضرورت سے زیادہ سیکولر افسر تھے ان کی کینسر سے موت ہوگئی تھی۔ یعقوب میمن ، میمن خاندان میں سب سے پڑھا لکھا تھا وہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھا ۔ یعقوب جب پڑھائی کر پریوار کا معیار زندگی اوپر اٹھانے کی کوشش کررہا تھا تب بڑا بھائی ابراہیم میمن عرف ٹائیگر میمن مافیہ سرغنہ داؤد ابراہیم کے گروہ سے تار جوڑ رہا تھا۔ ممبئی بم دھماکوں سے پہلے ہی میمن خاندان دوبئی بھاگ گیا تھا۔ وہاں سے پاکستان منتقل ہوگیا۔ یعقوب کو پاکستان پسند نہیں آیا اور وہ18 مہینے بعد بھارت آناچاہتا تھا۔5 اگست 1994 ء کو دہلی ریلوے اسٹیشن سے سی بی آئی نے اسے گرفتار کرلیا۔ اگر بھارت سرکار سے کوئی سمجھوتہ ہوتا تو اسے سرکاری گواہ بنا لیا جاتا اور پھر پچھلے 20 سالوں میں داؤد ابراہیم، ٹائیگر میمن اور آئی ایس آئی نے ایک بھی قدم کیوں نہیں اٹھایا یعقوب کے حق میں ؟ 12 مارچ1993 ء کو ممبئی دھماکوں کی سازش بھلے ہی ٹائیگر میمن۔ داؤد ابراہیم و آئی ایس آئی نے رچی تھی لیکن اس کا اہم کردار یعقوب میمن ہی تھا۔ اسی نے دھماکے میں شامل دیگر لوگوں کو گولہ بارود، ہتھیار، ڈیٹونیٹر وغیرہ سپلائی کئے تھے اور لوگوں سے دھماکے لئے21.90 لاکھ روپے اکٹھے کئے ۔ کون کہاں بم رکھے گا اس کا پورا منصوبہ یعقوب میمن نے ہی بنایا تھا اور سب طے کرنے کے بعد خاندان کے ساتھ کراچی فرار ہوگیا۔ ہم ان نام نہاد سیکولرسٹوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر اس طرح کی وارادت سعودی عرب یا کسی دوسرے عرب ملک میں ہوتی تو آج سے22 سال پہلے ہی اس کا سر قلم کردیا جاتا۔یہ تو ہمارے دیش کا قانون لچیلا ہے اور اس لئے بھارت آتنک کی پنا ہ گاہ بنتا جارہا ہے۔ انسان کی پہچان اس کے کرموں سے ہوتی ہے نہ کہ مذہب سے۔ کلام بن کر رہو گے تو ملک سر آنکھوں پر بٹھائے گا۔ یعقوب بننے کی کوشش کرو گے تو دیش دروہی کہہ لاؤ گے۔ کلام بن کر رہو گے تو دیش سلام کرے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!