جنتا کے مہامہم کی وداعی

بھارت کے سب سے مقبول اور عوام کے صدر،جن جن کے مشعل راہ بھارت رتن ڈاکٹر اے۔ پی ۔جے عبدالکلام اب اس دنیا میں نہیں رہے۔میزائل مین کے نام سے مشہور بھارت رتن کا پیر کی شام انتقال ہوگیا۔83 سالہ ڈاکٹر کلام شیلانگ میں ایک لیکچر کے دوران بے ہوش ہوکر گر پڑے تھے۔ انہیں بیتھنی ہسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قراردے دیا۔ سابق صدر کے انتقال پر 7 دنوں کا سرکاری سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان کے انتقال سے حقیقت میں ایک خلاصا پیدا ہوگیا ہے۔ بہت ہی غریبی میں پلے بڑھے کلام تمام دقتوں سے دوچار ہونے کے باوجود نہ صرف ایک کامیاب سائنسداں ہی بنے بلکہ دیش کے سچے ہتیشی کی شکل میں دیش کے اعلی ترین عہدے پر فائز ہوئے۔ 21 ویں صدی میں جوان ہوتی پیڑھی کے سامنے کلام ایک مشعل راہ کے طور پر سامنے آئے۔ ان کے پاس ایک ویژن تھا دیش کو ترقی یافتہ ملکوں کی برابری میں لاکر کھڑا کرنے کا۔جس چیز کے سہارے کلام نے دیش کو بدلنے کا خواب دیکھا وہ ہے سائنس اور تکنالوجی۔ تکنیک سے ان کے لگاؤ نے صرف نوجوانوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ سبھی مذہب اور ذات اور فرقوں کے درمیان انہیں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد وہ دوسرے ایسے شخص تھے جنہیں بچوں سے ملنے اور بات کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہوتی تھی۔بیشک ڈاکٹر کلام سے ہمارا ساتھ اب چھوٹ گیا ہے لیکن کہہ سکتے ہیں کہ ان کی نصیحت ہمیشہ ہمارا ساتھ دے گی۔ مسلسل آگے بڑھنے کی تلقین دے گی۔ انہوں نے پہلے ڈیفنس سائنسداں کے طور پر میزائل مین کی شکل میں دیش کی قابل قدر خدمت کی پھر صدر کی حیثیت سے پورے دیش کو ایک مکمل نیوکلیائی کفیل دیش بنانے میں ان کا قابل فخر تعاون تھا۔صدر جمہوریہ کے عہدے سے ہٹنے کے بعد بھی وہ قومی ٹیچر کا رول نبھاتے رہے اور آخری سانس لینے سے ٹھیک پہلے بھی وہ آئی آئی ایم شیلانگ میں لیکچر دے رہے تھے۔ وہ پہلے ایسے صدر تھے جنہوں نے ممبران پارلیمنٹ کو فرض پر اٹل رہنے کا حلف دلایا۔ 
انہوں نے نہ صرف دیش کو بڑی طاقت بنانے کا مول منتر دیا بلکہ لوگوں میں یہ بھروسہ بھی جگایا کہ بھارت ایک بڑی طاقت بن سکتا ہے اور دیش کے پہلے کنوارے صدر کلام کا ہیئر اسٹائل اپنے آپ میں انوکھا تھا۔ اور ایک صدر کی عام ہندوستانی تشریح میں فٹ نہیں بیٹھتا تھا لیکن دیش کے سب سے معزز ترین اشخاص میں سے ایک تھے جنہوں نے ایک آئینی اور ایک صدر کی حیثیت سے قابل قدر تعاون دے کر دیش کی خدمت کی تھی۔ ڈاکٹر کلام کی وفات سے پورے دیش میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ ایک ایسا خلا ہے جسے پر نہیں کیا جاسکتا۔ دیش ان کے مثالی تعاون کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔بھارت نے ایک عزیم سپوت کھو دیا ہے۔ہم انہیں اپنی شردھانجلی دیتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟