گورداس پور آتنکی حملے کے یہ گمنام ہیروز

پنجاب کے گورداس پور میں حملہ کرنے والے دہشت گرد پاکستان سے راوی ندی کے ذریعے ہندوستانی سرحد میں داخل ہوئے تھے اور ایسا لگتا ہے کہ ان کے ارادے تو بہت خطرناک تھے جو پورے نہیں ہوسکے۔ جہاں ہمارے پنجاب پولیس کے جانبازوں نے ان دہشت گردوں کو مار گرایا وہیں کئی اور ہیرو بھی ہیں جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر بے قصوروں کو بچایا۔ ایسا ایک شخص نانک چند آتنکی حملے کے خوفناک منظرکبھی نہ بھولے گا۔ نانک چند نے 80 بس مسافروں کو اپنی جان داؤ پر لگاکر بچا لیا ہے۔نانک چند پنجاب روڈ ویز کی بس نمبر PV06G9569 چلاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ وہ بنیال سے اپنی بس لیکرصبح نکلا تھا۔ بس جیسے ہی دینا نگر پولیس تھانے کے آگے پہنچی تو تھانے کی طرف سے سیدھی ایک گولی بس کے اندر آکر لگی۔ اس گولی سے پانچ مسافر زخمی ہوگئے۔اسی درمیان دوسرے دہشت گرد نے بس روکنے کیلئے ہاتھ دیا۔ تبھی انہیں آتنکی حملے کا احساس ہوا اور انہوں نے بس کو بھگالیا۔ پانچ سواریوں کو گولی لگنے سے بس کے اندر چیخ پکار و دہشت کا ماحول پیدا ہوگیا۔ زخمی سواریوں کے پیش نظر ڈرائیور نانک چند سیدھے سول ہسپتال پہنچے۔ تب تک ہسپتال میں آتنکی حملے کی اطلاع پہنچ چکی تھی۔ وہاں پہنچتے ہی ڈاکٹروں نے فوراً علاج شروع کردیا۔ نانک چند اگر بس روک لیتا تو غدر مچ جاتا ۔ ہم نانک چند کی بہادری اور سوجھ بوجھ کر سلام کرتے ہیں۔لگتا ہے دہشت گردوں کے نشانے پر جموں توی بھٹنڈہ ایکسپریس ٹرین تھی۔ یہ ٹرین جموں سے رات9.30 بجے چل تک دینا نگر کے اس پل سے گزرتی ہے جہاں دہشت گردوں نے بموں کا جال بچھایا ہوا تھا۔ صبح قریب 4 بجے ٹرین کو اس پل سے گزرنا تھا لیکن ریل منڈل فیروز پور نے ایک ہفتے پہلے لائن میں کچھ تکنیکی خرابی کے چلتے اس کا روٹ بدل کر براستہ مکینیا۔ جالندھر کردیا تھا۔ کی ۔ مین(Key-man )کی سوجھ بوجھ کے سبب پیر کو پٹھان کوٹ ۔امرتسر ریلوے اسٹیشن پر بڑا حادثہ ٹل گیا۔گینگ نمبر 13AP (امرتسر ۔پٹھان کوٹ) ہیڈ کوارٹر دینا نگر میں تعینات کی۔مین اشونی کمار نے بتایا کہ صبح قریب ساڑھے چار بجے وہ ٹریک کی چیکنگ کررہے تھے کہ کلو میٹر 85 پر پہنچے۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ پل پر کچھ لگا ہوا ہے۔ اس پر وہ فوراً کلو میٹر 84/5-6 پر واقع برج نمبر236 کے پاس پہنچے۔ وہاں پل پر تارسے لپٹے چار پانچ سیل نماآلات لگے تھے۔ اس پر اسے شبہ ہوا کہ یہ تو بم ہیں۔ اس دوران پٹھان کوٹ سے امرتسر پیسنجر(ٹرین نمبر54612 ) پرمانند اسٹیشن سے نکل چکی ہے اور دو تین منٹ میں پل پر پہنچنے والی تھی۔ اس پر اس نے فوراً اپنے تھیلے سے لال کپڑا نکال کر ٹریک کے بیچ میں لگادیا۔لال کپڑا دیکھ پل سے قریب 60 میٹر پیچھے ڈرائیور نے ٹرین روک لی۔ ٹرین رکنے کی اطلاع دینا نگر ریلوے اسٹیشن ماسٹر کو ملی تو انہوں نے کنٹرول روم کو بتایا۔ اس پر جی آر پی، آر پی ایف و ضلع پولیس کے افسران و جوان موقع پر پہنچے۔ ریل حکام نے بتایا کہ آج اگر کی۔ مین اشونی کمار نے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ نہ کیاہوتا تو یقیناًریل گاڑی اڑ جاتی اور کئی لوگوں کی جان چلی جاتی۔ اشونی کی تعریف کرتے ہوئے حکام نے کہا کہ انہیں خصوصی اعزاز دلایا جائے گا۔ دینا نگر میں آتنکی حملے کو انجام دینے والے ملزم پاکستان سے آئے تھے۔اس کے لئے دہشت گردوں نے یوپی ایس سسٹم کا استعمال کیا تھا۔ ہندوستانی سرحد میں داخل ہونے کے لئے دہشت گردوں نے شنکر گڑھ۔ بنیال کا راستہ چنا۔ابتدائی جانچ میں پتہ چلا ہے کہ ڈی جی پی سمید سنگھ سینی نے کہا کہ دہشت گردوں کے جی پی ایس کی پہلی لوکیشن راوی ندی کے کنارے بنیال کی ملی ہے۔ ڈی جی پی دیر شام دینا نگر تھانے کا دورہ کرنے آئے تھے۔ پاکستان میں سیالکوٹ سے کچھ ہی دوری پر واقع گاؤں شنکر گڑھ ہندوستانی سرحد سے لگا ہوا ہے۔ یہ گاؤں دینا نگر سے صرف 20 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ دہشت گردوں کے پاس کوئی گاڑی نہیں تھی اس لئے اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ دہشت گرد ہندوستانی سرحد میں داخل ہوکر پیدل ہی دینا نگر ریلوے پٹری سے گاؤں تلونڈی پہنچے جہاں انہوں نے پل پر بم لگائے۔ اس کے بعد ایک کلو میٹر پیدل چل کر شہری علاقے میں آئے۔ خفیہ ایجنسی کے ایک افسر کا خیال ہے کہ اس گاڑی کو نشانہ بنانے کا مقصد سیدھے طور پر فوج کے جوانوں اور افسروں کو نشانہ بنانا تھا کیونکہ اس گاڑی میں جموں کشمیرمیں ڈیوٹی کرنے والے تمام فوج کے جوانوں سے لیکر اعلی افسر سفر کرتے ہیں۔ پلان تو ان آتنکیوں کا ریل کو اڑانے کے بعد واپس پاکستان بھاگ جانے کا تھا لیکن ان کی بدقسمتی یہ رہی کہ وہ دینا نگر پولیس تھانے میں گھس گئے جہاں ان کا کام تمام ہوگیا۔ جہاں ہم ایس پی بلجیت سنگھ کی بہادری کی داد دیتے ہیں وہیں ہم پنجاب روڈ ویز کے بس ڈرائیور نانک چند اور کی مین اشونی کمار کو بھی سلام کرتے ہیں۔ یہ ہیں گورداس پور آتنکی حملے کے ان سنگ ( گمنام)ہیرو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟