آتنکی حملے سے پھر دہلا پنجاب

پیر 27 جولائی 2015 ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ پیر کو دیش کو دوہرا دھکا لگا ہے۔ صبح صبح خبر آئی پاکستان نواز دہشت گردوں نے پنجاب کے گورداس پور کے دینا نگر میں بھاری حملہ کردیا ہے اور شام ہوتے ہوتے خبر آئی ہندوستان کے میزائل مین، سابق صدر ڈاکٹر اے ۔ پی ۔ جے عبدالکلام اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ بات کرتے ہیں گورداس پور آتنکی حملے کی۔ فوج کی وردی پہنے زبردست ہتھیاروں سے مسلح تین دہشت گردوں نے پیر کو ایک چلتی بس اور ایک پولیس تھانے پر تابڑ توڑ گولیاں برسائیں جس میں ایک پولیس ایس پی سمیت 7 لوگ مارے گئے اور 15 زخمی ہوگئے۔ ریاست میں 8 سال بعد پنجاب میں یہ پہلا آتنکی حملہ تھا۔ مانا جارہا ہے کہ آتنکی پاکستان سے آئے تھے اور جس تیاری کے ساتھ آئے تھے اور جو ہتھیار اپنے ساتھ لائے تھے ان سے لشکر طیبہ کی بو آتی ہے۔ حملہ آوروں کے بارے میں حالانکہ کوئی سرکاری بیان تو ابھی تک نہیں آیا لیکن شبہ ہے کہ وہ جموں اور پٹھانکوٹ کے درمیان بغیر باڑھ کی سرحد کے ذریعے یا جموں ضلع کے چکہیرا کے راستے پاکستان سے بھارت میں گھس آئے تھے۔ اس سے پہلے20 مارچ کو جموں وکشمیر کے کٹھوا ضلع میں جیش محمد کے آتنکی فوج کی وردی میں ایک تھانے میں گھس آئے اور تین سکیورٹی ملازمین سمیت6 لوگ مارے گئے تھے۔ فوج کی وردی پہنے آتنکیوں کے حملے میں 4 عام شہری اور 3 پولیس ملازمین کی موت ہوگئی۔ شہید ہوئے پولیس ملازمین میں پولیس سپرنٹنڈنٹ (خفیہ) بلجیت سنگھ شامل ہیں۔ بلجیت اپنے والد انسپکٹر آدھار سنگھ کی موت کے بعد سال1985 میں بطورایس ایس پی فورس میں شامل ہوئے تھے۔ آپریشن کی رہنمائی کررہے شہید ایس پی (خفیہ) بلجیت سنگھ کے آخری الفاظ: بلجیت کے ساتھ مورچہ سنبھالے اے ایس آئی بھوپندر سنگھ کے مطابق دہشت گردوں کی گولیاں مسلسل اے ایس پی کے پاس سے نکل رہی تھیں، بلجیت تھانے کی چھت پر ایک ٹنکی کے پیچھے چھپ کر جوابی فائرننگ کررہے تھے ۔بھوپندر نے ان سے سنبھل کر رہنے کے لئے کہا۔ بلجیت سنگھ کا جواب تھا، آپ میری فکر نہیں کرو اور آگے بڑھ کر لڑو۔۔۔ میں ان کو کھڈیڑ کر ہی دم لوں گا۔ تبھی ایک گولی بلجیت کے سر میں پار ہوگئی۔ انہیں اسپتال لے جایا گیا جہاں انہوں نے دم توڑدیا۔ کپورتھلا کے باشندے بلجیت سنگھ ڈیڑھ مہینے پہلے ہی پرموشن پا کر ایس پی بنے تھے۔ پیر کو دینا نگر تھانے میں فائرننگ کی خبر سنتے ہی وہ وہاں پہنچ گئے تھے۔ ان کے والد نے بھی دیش کے لئے اپنی جان نچھاور کی اور اب بیٹے بلجیت نے بھی۔ایسے سپوتوں پر پورے دیش کو فخر ہے۔ پنجاب پولیس کی اسپیشل فورس کی تعریف کرنی ہوگی جو ایک بار تھانے کے اندر گھسی اور تینوں دہشت گردوں کو مار کر ہی نکلے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایک ایک کر آتنکی کو50-50 گولیاں لگیں۔ اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پنجاب کے ان جانباز سپاہیوں نے جس دلیری سے ان پر حملہ کیا ہوگا ۔آتنکی ہائی وے نام سے مشہور پٹھانکوٹ جموں شاہراہ پر اس بار حملے کی جگہ جموں سے بدل کر پنجاب بیشک کردی گئی تھی مگر ارادے بڑے خطرناک تھے۔ بھاری ہتھیاروں اور پوری رسد پانی کی تیاری کے ساتھ آئے ان شیطانی گروہ کا نشانہ اس قومی شاہراہ سے ہوکر گزرنے والے امرناتھ یاتریوں کو مارنا تھا لیکن کشمیرمیں بالتال میں بادل پھٹنے کے حادثے کے بعد امرناتھ یاترا کوعارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔ بھولے شنکر کی کرپا سے تیرتھ یاتریوں کی تو جان بچ گئی لیکن اس کی قیمت دیش کے 7 سپوتوں کو اپنی جان دیکر چکانی پڑی۔ آتنکی کتنی تیاری سے آئے تھے اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ہماری سکیورٹی فورس کو فوج کو 16 گھنٹے سے زیادہ تک لڑائی میں الجھائے رکھا۔ تباہی پھیلانے سے پہلے ان خودکش گروہ کا صفایا کرنے والے سکیورٹی فورس کے دستے کے عزم اور بہادری تو بیشک قابل تعریف ہی ہے لیکن سکیورٹی تیاریوں و خفیہ محکمہ کے بھروسے پر ضرور سوالیہ نشان لگتا ہے۔ 
پٹھانکوٹ ۔جموں ہائی وے کوئی عام قومی شاہراہ نہیں ہے۔ جموں کشمیر کو بھارت کی قومی دھارا سے جوڑنے والی لائف لائن ہے اور اب سارے دیش کی نظریں مودی سرکار کی طرف ہیں۔ دیکھیں وہ اس حملے پر کیا جوابی کارروائی کرتے ہیں؟ کیا آپ اب بھی دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے؟ دہشت گردی ایسا سیاسی اشو نہیں جس پر سیاسی روٹیاں سینکی جائیں۔یہ وقت متحد ہوکر چوکس رہنے کا ہے اور پاکستان کو منہ توڑ جواب دینے کا بھی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!