آخر کیوں بڑھ رہے ہیں آبروریزی کے واقعات

این سی بی آر کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ دہلی میں سب سے زیادہ آبروریزی کے واقعات ہوتے ہیں۔ راجدھانی میں ا وسطا ہرروز چار عورتیں درندگی کے شکار ہوتی ہیں۔ سال 2015 کے پہلے دومہینے میں راجدھانی کے 181 پولیس اسٹیشنوں کے دائرے اختیار علاقوں میں آبروریزی کے 300 اور چھیڑ خانی کے 500 معاملے درج کئے گئے۔ 2014میں آبروریزی کے 269 معاملے درج کئے گئے جب کہ سال 2013 میں یہ تعداد1571 ہوا کرتی تھیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سارے انتظامات اور قوانین کے باوجود ریپ کے معاملے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ہم پولیس کو ہی ان کے لئے ذمہ دار ٹھہرادیتے ہیں دیش کے قانون اور نظام انصاف بھی اس کے لئے کم قصوروار نہیں ہے۔ دہلی کے ایڈیشنل سیشن جج ایم سی گپتا نے 21 سالہ لڑکی کااغوا کرنے اور زبردستی شادی کر اس سے آبروریزی کرنے کے ایک شخص کو دس سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اس جرم میں مدد کرنے والی خاتون کو بھی عدالت نے اتنی ہی سزا سنائی۔ ہمارے دیش میں آبروریزی کے قانون نربھایا کانڈ کے بعد سخت کئے گئے یہ 16دسمبر 2013میں ہوا تھا۔ آج تک اتنا وقت گزرجانے پر ایک بھی ملزم کو موت کی سزا نہیں دی جاسکی۔ ابھی معاملہ عدالتوں میں ہی لٹکا ہوا ہے ہمارے دیش عدلیہ نظام پر اتنے ہی سنگین سوال اٹھتے ہیں جتنے پولیس اور سماج پر۔ فیس بک پر میرے ایک جاننے والے نے دنیا کے دیگرملکوں کے آبروریزی کی سزاؤں کی تفصیل پیش کی ہے۔ میں اس کی جواز پر تو دعوی تو نہیں کرسکتا لیکن مجھے یہ صحیح لگتا ہے کہ اب اگر غور فرمائیں دنیا کے دیگرملکوں میں آبروریزی کی سزاکویت میں 7 دنوں کے اندر موت کی سزا دے دی جاتی ہیں۔ ایران میں 24 گھنٹے کے اندر پتھروں سے مار دیا جاتا ہے یا پھانسی لگا دی جاتی ہیں۔ افغانستان میں 4 دنوں کے اندر سر میں گولی مار دی جاتی ہیں۔ ادھر چین میں تو کوئی مقدمہ نہیں چلتا۔ میڈیکل جانچ سے ثابت ہونے کے بعد موت کی سزا، ملیشیا میں موت کی سزا، منگلولیہ میں خاندان کے ذریعے بدلے کے طور پر موت۔ ڈیتھ از لیونج بائی فیملی۔ عراق میں پتھروں سے مار کر قتل۔ڈیتھ بائی استھونک ٹل لاسٹ بریتھ۔ قتل میں ہاتھ پیر اور پتھر وغیرہ مار کر موت کی سزا دی جاتی ہے۔پویلین میں سوروں سے کٹوا کر موت،ساؤتھ افریقہ میں 20 سال کی سزا ہوتی ہیں۔ امریکہ میں متاثرہ کی عمراور اس کی بربریت کو دیکھ کر عمر قید یا 20 سال کی قید کی سزا۔ سعودی عرب میں 7 دنوں کے اندر موت کی سزا یا پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ روس میں 20سال کی قید مشقت جیل۔نیدر لینڈ میں جنسی جرائم کے لئے الگ الگ سزا اور بھارت میں مظاہرہ فنی اور کینڈل مارچ، جانچ کمیشن، سمجھوتہ ، رشوت میں ڈال دینا ہے۔ اور متاثرہ کی تنقید، میڈیا ٹرائل، سیاسی کرن، اور ذات پات کی سیاست، برسوں بعد چارج شیٹ، سالوں بعد مقدمہ، بے عزتی اور ذلالت اور آخر میں قصوروار کا بچ نکلنا۔ ہمارے دیش میں پورا کا پورا ہی دھراّہی خراب ہے۔اس میں ٹھوس اصلاح کی ضرورت ہے۔ صرف پولیس کو ہی قصوروار قرار دینے سے آبروریزی رکنے والی نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!