امریکی مشہور ترین ایجنسی’گیلپ پول‘ کا سروے!

لوک سبھا چناؤ میں نتیجے ویسے تو پورے دیش کے لئے اہمیت کے حامل ثابت ہوں گے لیکن مرکز میں اگلی حکومت کس پارٹی یا محاذ کی بنتی ہے اسے 6بڑی ریاستوں کو طے کرنا ہے۔ پچھلے چناؤ میں ان 6 ریاستوں نے فیصلہ کن کردار نبھایا تھا اور یوپی اے اقتدار قابض ہوئی تھی۔ اس بار بھی ان ریاستوں میں جس اتحاد کی کارکردگی بہتر ہوگی وہی مرکز کے اقتدار پر قابض ہوگا۔ان ریاستوں میں اترپردیش، مہاراشٹر، آندھرا پردیش اور راجستھان شامل ہیں۔ ان 6 ریاستوں میں کل 264 سیٹیں ہیں لیکن یوپی اے و این ڈی اے کے لئے مرکز میں سرکار بنانے کے لئے ان ریاستوں میں کم سے کم پانچ میں شاندار جیت ضروری ہے۔ اگر یوپی اے یا این ڈی اے دیش کی دیگر ریاستوں میں اچھی جیت حاصل کرتا ہے اور ان ریاستوں میں وہ پچھڑتا ہے تو سرکار بنانا شاید ممکن نہ ہوپائے۔قریب قریب سبھی چناؤ میں ان ریاستوں کے نتائج اثر انداز ہوتے ہیں۔ پچھلے عام چناؤ میں مندرجہ بالا ریاستوں میں سے پانچ میں یوپی اے کی کارکردگی شاندار رہی تھی۔ ان میں یوپی، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش شامل تھے۔ یوپی میں کانگریس کو22، مہاراشٹر میں کانگریس کواتحادی این سی پی سمیت25 ، آندھرا میں ریکارڈ تعداد 33 سیٹیں، راجستھان میں 21، مدھیہ پردیش میں11 سیٹیں ملی تھیں کل ملا کر112 سیٹیں یوپی اے کو ان پانچ ریاستوں سے ملی تھیں جو اس کی کل آدھے سے زیادہ تھیں لیکن اس بار ان ریاستوں میں یوپی اے کی راہ مشکل دکھائی پڑتی ہے۔ دنیا میں مشہور امریکہ کی سروے کمپنی ’گیلپ پول‘ نے اپنے تازہ سروے میں دعوی کیا ہے کہ ہندوستان کی بہت بڑی اکثریت مانتی ہے کہ ان کی سرکار میں ہر طرف کرپشن پھیلا ہوا ہے۔ زیادہ تر ہندوستانیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ موجودہ حکومت نے اس سے نمٹنے کے لئے کوئی خاص کام نہیں کیا۔ گیلپ کے سروے کے مطابق 2013ء میں 18 سے34 برس کے ہندوستانی لڑکوں کی تین چوتھائی آبادی یہ مانتی ہے کہ ان کی سرکار میں وسیع طور پر کرپشن پھیلا ہوا ہے جبکہ 35 سے54 برس کے لوگوں کی 76 فیصدی آبادی اور 55 برس سے اوپر کے 72 فیصدی بزرگوں کا بھی ایسا ہی خیال ہے۔ اس سروے کے لئے اکتوبر2013ء کے دوران تین ہزار لوگوں سے بات کی گئی تھی جس کے مطابق نارتھ انڈیا کے لوگ شمال کی بہ نسبت اقتصادی ماحول کو لیکر زیادہ فکر مند نظر آئے جبکہ ساؤتھ انڈیا کے 38فیصدی لوگ مانتے ہیں دیش کی معیشت بہتر ہورہی ہے۔یہ بھی مانتے ہیں ان کی معیشت ٹھپ ہے یا اس کی حالت بہتر ہوئی ہے۔ سروے میں آگے دعوی کیا گیا ہے کہ نارتھ انڈیا کے صرف 9فیصدی لوگ ایسا مانتے ہیں کہ ملک کی معیشت اچھی ہورہی ہے جبکہ65فیصدی کی بھاری اکثریت مانتی ہے کہ ملک کی معیشت خراب ہورہی ہے۔ گیلپ کے مطابق 2013ء میں محض 27 فیصدی ہندوستانیوں نے منموہن سنگھ کے کام کاج کو صحیح مانا تھا جبکہ40 فیصدی نے اسے مسترد کردیا۔ نارتھ انڈیا میں محض14فیصدی لوگوں نے منموہن سنگھ کو کامیاب مانا تھا جبکہ2012ء میں اسی علاقے کے 38فیصدی لوگوں نے انہیں کامیاب بتایا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟