پانچویں مرحلے کی 121 سیٹیں مودی کے مشن 272+ کیلئے کافی اہم!

عام چناؤ کے پانچویں مرحلے میں121 سیٹوں پر آج یعنی 17 اپریل کو ہونے والا چناؤ سبھی بڑی پارٹیوں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ این ڈی ٹی وی کے ایک تازہ سروے جو اس نے ہنس ریسرچ گروپ سے کرایا، بھاجپا کے لئے اچھی خبر لے کر آیا ہے۔دیش میں اس وقت نریندر مودی کی لہر چل رہی ہے جس کے چلتے این ڈی اے کو لوک سبھا میں 230 سے 275 سیٹیں تک مل سکتی ہیں۔سب سے بڑے اوپینین پول میں لوک سبھا کی کل 543 سیٹوں میں سے یوپی اے کو111 سے 128 سیٹیں ملنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس پول کے ماہرین کا دعوی ہے اکیلے بھاجپا کے کھاتے میں 196 سے226 سیٹیں اور کانگریس کو 92 سے106 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ دونوں بھاجپا اور کانگریس نے آج ہونے والی پولنگ کے لئے پوری طاقت جھونک دی تھی۔ اب تک ہوئے چناؤ کی بہ نسبت زیادہ سیٹیں (120) اس مرحلے میں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ان میں کرناٹک ، مہاراشٹر، راجستھان، مدھیہ پردیش، اڑیسہ، اترپردیش وغیرہ سیٹوں پر آج ووٹ پڑیں گے۔ اترپردیش کی چاروں بڑی پارٹیوں نے اب مغربی اترپردیش کی 11 لوک سبھا سیٹوں پر اپنی پوری طاقت لگائی۔ پچھلے چناؤ میں سب سے زیادہ 4 سیٹیں سپا نے جیتی تھیں۔ اس کے بعد کانگریس اور بھاجپااور راشٹریہ لوکدل اتحاد تین تین سیٹ لیکر برابری پر تھا۔ بسپا کو ایک ہی سیٹ پر صبر کرنا پڑا تھا۔ 10 اپریل کو صوبے کے پہلے مرحلے میں جن 10 سیٹوں کے لئے ووٹ پڑے تھے وہاں بھاجپا کو اپنی بڑھت کا بھروسہ ہے۔ دوسرے مرحلے میں 11 سیٹوں پر بھاجپا کی پچھلے چناؤ میں کارکردگی کافی اچھی نہیں دکھائی دی۔ نگینہ محفوظ سیٹ پر اصلی مقابلہ بھاجپا کے ڈاکٹر ونش راوت اور بسپا کے گریش جاٹو کے درمیان ہے۔ مراد آباد میں پچھلی بار کانگریس کے اظہرالدین نے بھاجپا کے سوورن سنگھ کو ہرایا تھا۔ پانچ سال تک اظہر الدین علاقے سے ندارد رہے لہٰذا کانگریس نے انہیں اس بار راجستھان بھیج دیا ان کی جگہ رامپور کی بیگم نور بانو یاہاں سے امیدوار ہیں۔بسپا نے میرٹھ کے متنازعہ لیڈریعقوب قریشی کو اور سپا نے ایس ٹی حسن کو اتارا ہے۔ تین مسلمانوں کے درمیان بھاجپا کے ٹھاکر سرویش سنگھ اس بار اپنی جیت کو لیکر کافی مطمئن نظر آتے ہیں۔ یہاں سنبھل سیٹ بھاجپا کے لئے اس بار بھی کافی پہیلی بنی ہوئی ہے۔ یہاں اصلی مقابلہ بسپا کو چھوڑ کر سپا میں آئے شفیع الرحمن برق بسپا کے عقی الرحمن اور بھاجپا کے ستیہ پال سونی میدان میں ہیں۔ کانگریس کے متنازعہ بابا آچاریہ پرمود کرتنام پر داؤ لگایا ہے۔ رامپور میں پچھلے دو چناؤ میں سپا ٹکٹ پر جیہ پردہ نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس بار سپا نے یہ سیٹ نصیر احمد خان اوربسپا نے حاجی اکبر حسین کو تو کانگریس نے بیگم نور بانو کے بیٹے کاظم علی کو امیدوار بنایا ہے۔بھاجپا کے مضبوط لودھ لیڈر اور سابق وزیر ندال سنگھ کو جیت کے لئے سخت محنت کا سامنا ہے۔ امروہہ میں پچھلی بار بھاجپا آر ایل ڈی اتحاد کے امیدوار دویندر ناگپال نے سپا کو ہرایا تھا۔ اس بار بسپا کے حاجی شبن اور سپا کی حمیرہ اختر ،آر ایل ڈی۔ کانگریس کے مشترکہ امیدوار راجیش ٹکیت اور بھاجپا کے امیر ترین گوجر لیڈر سوامی رامدیو کی پسند کے کنور سنگھ تنور کو کانٹے کی لڑائی میں اتارا ہے۔ بریلی سیٹ سے بھاجپا کے لئے عمید درگا ہیں لیکن پچھلے چناؤ میں کانگریس کے پروین سنگھ نے بھاجپائی لیڈر سنتوش گنگوار کو ہرایا۔ اس بار اپنی کھوئی سیٹ اور اپنی ساکھ کو واپس لانے کے لئے وہ دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ مقابلہ بسپا کے عمیش گوتم ،سپا کی عائشہ اسلام اور پچھلے کامیاب رہے پروین ایرن میں ہے۔ پیلی بھیت میں مینکا گاندھی بسپا کے انیس احمد، سپا کے بدھ سین اور کانگریس کے سنجے کپور سے مقابلہ آرا ہیں۔ تیسرے مرحلے میں 51 سیٹوں پر پولنگ میں مسلمانوں کے ووٹ کی تقسیم نے کانگریس ہی نہیں دیگر پارٹیوں کو بھی پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ذرائع کے مطابق مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور دانشوروں نے اس سلسلے میں جو حکمت عملی بنائی ہے اس کے مطابق بھاجپا کے سامنے کوئی بھی مضبوط امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالا جائے۔ ان سیٹوں پر سپا۔بسپا دونوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔17 اپریل کو بہار کی 7 پارلیمانی سیٹوں جن پر چناؤ ہورہا ہے وہ منگیر،نالندہ، پٹنہ صاحب، پاٹلی پتر، آرا،بکسر، جہان آباد وغیرہ شامل ہیں۔ پہلے مرحلے کے مقابلے میں یہ سیٹیں کافی اہمیت کی حامل ہیں اور حساس بھی ہیں۔ نکسلی حملوں کے نقطہ نظر سے پانچویں مرحلے کی سات سیٹوں پر کئی سرکردہ لیڈروں کی عزت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کو اپنے آبائی شہر نالندہ میں جنتادل (یو) کے امیدوار کو کامیاب بنانا ہے جہاں سیاسی ساکھ کا سوال ہے وہیں راشٹریہ جنتادل کے صدر لالو پرساد یادو کی ساکھ پاٹلی پترسیٹ پر لگی ہوئی ہے۔ یہاں سے ان کی بیٹی میسا اور دوسرے رام کرپال سے سخت ٹکر مل رہی ہے۔ اگر ووٹوں پر نظر ڈالی جائے تو دوسرے مرحلے میں لیڈروں کے علاوہ دو فلمیں ستارے اور دو ڈاکٹر، ایک سابق اعلی افسر میدان میں ہے۔پٹنہ صاحب سے بھاجپا کے شتروگھن سنہا اپنی دوسری بار جیت کے لئے جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ کانگریس نے کرپال سنگھ اور جنتادل (یو)نے ڈاکٹر گوپال سنگھ سنہا کو اتارا ہے جس کی وجہ سے لڑائی سہ رخی بن گئی ہے۔ آرا پارلیمانی سیٹ سے بھاجپا نے سابق ہوم سکریٹری آر کے سنگھ کو جبکہ جنتادل (یو ) نے مینا دیوی اور آر جے ڈی نے بھگوان سنگھ کشواہا کو میدان میں اتارا ہے۔اب کچھ دیگر حلقوں کی بات کریں۔بالمیڑ لوک سبھا سیٹ سے بھاجپا کے بڑے ستون رہے اور مرکز میں وزیر خزانہ ، وزیر خارجہ رہے جسونت سنگھ آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ ان کا مقابلہ بھاجپا کے کرنل سونا رام اور کانگریس کے ہریش چودھری سمیت 11 امیدواروں سے ہے۔ جسونت سنگھ کو ہرانے کے لئے صوبے کی وزیر اعلی وسندھرا راجے نے بھی اپنی ناک کا سوال بنا لیا ہے۔ کرناٹک کی اہم حاسن لوک سبھا سیٹ سے سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوگوڑاچناؤ میدان میں اترنے والے ہیں ان کا مقابلہ کانگریس کی ممبر اسمبلی اے۔ منجو سے ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ دیوگوڑا کے خلاف چناوی حکمت عملی میں وزیر اعلی سدا رمیا بھی مدد کررہے ہیں۔81 سال کے دیوگوڑا کرناٹک کی سیاست میں کھلاڑی ہیں۔ بھاجپا کے لئے بی۔ ایس یدی رپا جوڑ توڑ میں بھی کم نہیں ہیں۔ اب دیکھنا ہے مودی لہر کا کتنا فائدہ کرناٹک کی 28 سیٹوں پر ہوتا ہے۔ یہ بھی پتہ چلے گا کہ جھارکھنڈ کی پانچ سیٹیں رانچی، جمشید پور، سنگھ بھوم وغیرہ میں چناؤ ہوگا۔ راجستھان میں 20 سیٹوں پر چناؤ بھاجپا کے لئے کافی اہمیت کا حامل ہے۔مدھیہ پردیش کی10 سیٹوں پر بھاجپا چاہے گی کہ وہ زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتے۔ اڑیسہ کی11 سیٹوں پر ووٹ ڈلے گا۔ کل ملا کر یہ نریندر مودی کے مشن 272+ کے لئے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ بھاجپا کو امید ہوگی کہ اس پانچویں مرحلے کے بعد این ڈی ٹی وی کا سروے اگلی بار اور بہتر آئے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟