اتراکھنڈ میں نریندر مودی لہراور ہریش راوت سرکار میں کانٹے کی ٹکر!

اتراکھنڈ کے سرحدی علاقے کی بیداری کہیں یا پھر فوجی اکثریتی خطے کی فطری یا قدرتی ، سیاسی طور سے یہ ریاست کے عوام الناس نے تقریباً ہر چناؤ میں خود کو قومی دھارا سے جوڑے رکھا۔ سال1957ء سے پہلے چناؤ سے لیکر 2009ء میں 15 ویں لوک سبھا میں یہاں کے ووٹروں نے انہی پارٹیوں پر بھروسہ جتایا جو اکثریت یا اقلیت کے قریب رہی ہیں۔حال میں اتراکھنڈ میں لوک سبھا کی پانچ سیٹیں ہیں۔ ٹہری ،پوڑی گڑوال، الموڑا، نینی تال اور ہری دوارشامل ہیں۔ان سیٹوں پر دیش کی سیاست میں کانگریس کی ہی بالادستی رہی اور اس کو ایکطرفہ کامیابی ملی۔ ایمرجنسی کے بعد 1977 ء میں چھٹی لوک سبھا چناؤ میں مرکز میں اقتدار میں تبدیلی ہوئی تو اتراکھنڈ کی سبھی سیٹوں پر جنتا پارٹی کا قبضہ ہوگیا ۔ تب سے لیکر اب تک اتراکھنڈ میں کانگریس کا ہی دبدبہ رہا ہے۔1998ء میں بھاجپا نے کانگریس کا پوری طرح صفایا کیا۔ اگلے سال1999ء میں این ڈی اے کی سرکار بنی تو بھاجپا کو چار اور کانگریس کو ایک سیٹ ملی۔ ہری دوار کی اہم سیٹ پر تصویر اب صاف ہوگئی ہے۔ اس بار یہاں مودی لہر اور ہریش راوت سرکار کے درمیان جنگ ہے۔اس سیٹ پر وزیر اعلی ہریش راوت کی بیوی رینوکا راوت چناؤ لڑ رہی ہیں۔ جبکہ ٹہری سیٹ سے سابق وزیر اعلی وجے بہوگنا کے صاحبزادے ساکیت بہوگنا، پوڑی گڑوال سے اور ریاست کے وزیر ذراعت ہرک سنگھ راوت میدان میں ہیں۔ رینوکا ہری دوار سیٹ سے لڑ رہی ہیں جس کی نمائندگی ان کے شوہر ہریش راوت کرچکے ہیں۔2009ء میں وہ یہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ بھاجپا کی جانب سے ہری دوار سے سابق وزیر اعلی رمیش پوکھریال نشنک امیدوار ہیں۔ویسے تو اور بھی امیدوار ہیں لیکن اہم مقابلہ وزیر اعلی کی اہلیہ اور بھاجپا نیتا نشنک کے درمیان مانا جارہا ہے۔پچھلے برس آئے سیلاب و تباہی اور پھر کیدارناتھ وادی اور ریاست کے دیگر حصوں میں متاثرہ افراد کے لئے ریلیف کام حکمراں پارٹی کو بھاری پڑ سکتا ہے۔ اس چناؤ میں جہاں ایک ٹہری گھرانے کی ساکھ تو دوسری طرف ہیموتی نندن بہوگنا خاندان کی تیسری پیڑھی کا مستقبل داؤ پر لگا ہے وہیں یہاں راج گھرانے کی مالا راجے لکشمی شاہ بھاجپا کی ٹکر سابق وزیراعلی کے بیٹے ساکیت بہوگناکے درمیان ہے۔2012ء کے ضمنی چناؤ میں ساکیت کو مات دے چکی مالا راجے لکشمی شاہ کیلئے اپنی جیت کو دوہرانا آسان نہیں ہوگا۔بھاجپا ۔کانگریس کے علاوہ ٹہری سے عام آدمی پارٹی ، بسپا اور دیگر امیدوار بھی اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ سیاسی وراثت کے معاملے میں دونوں کنبے ایک دوسرے سے کم نہیں ہیں۔ ٹہری میں شاہی پریوار کے دبدبہ کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک16 لوک سبھا چناؤ میں 10 مرتبہ جنتا نے شاہی پریوار پر بھروسہ جتایا ہے۔ ادھر بہوگنا خاندان کا یوپی سے دہلی تک دبدبہ ہے۔وہیں ہیموتی نندن بہوگنا کی مضبوط سیاسی بنیاد سب کو معلوم ہے۔ دونوں کنبوں میں سیاسی جنگ پرانی ہے۔ ٹہری سیٹ پر ہار جیت طے کرتا ہے میدانی علاقہ۔ ٹہری لوک سبھا میں اتر کاشی ضلع کے تین اسمبلی حلقوں میں محض پونے دو لاکھ ووٹ ہیں۔ ٹہری ضلع کے چار اسمبلیوں حلقوں میں تقریباً تین لاکھ ووٹ ہیں۔ باقی سات لاکھ ووٹر دہرہ دون ضلع کی سات اسمبلی سیٹوں میں ہیں۔ 2009ء میں ہوئے ضمنی چناؤ میں بھاجپا کو دہرہ دون کے میدانی حلقوں کی پانچ اسمبلی سیٹوں پر بھاری اکثریت سے کامیابی ملی تھی۔ اب دیکھنا ہے کہ بھاجپا اس ریاست میں اپنا دبدبہ پھر سے قائم رکھ سکے گی؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟