ورون گاندھی اپنی تقریروں میں مودی کا ذکر تک نہیں کررہے!

امیٹھی سے لگا سلطانپور لوک سبھا چناؤ حلقہ بھی اس بار وی آئی پی اسٹیٹس کا حامل بن چکا ہے کیونکہ گاندھی پریوار کے ہی نوجوان ورون گاندھی کو بھاجپا نے میدان میں اتارا ہے۔ پچھلی بار محض40 ہزار ووٹ پانے والے بھاجپا کے ورکروں کا جوش ساتویں آسمان پر ہے۔ دلچسپ اور چونکانے والی بات تو یہ ہے سلطانپور میں نہ تو کوئی نریندر مودی کی بات کررہا ہے نہ ہی بھاجپا کی کوئی لہر۔ صرف ورون کی لہر چل رہی ہے۔روزانہ 15سے20 چناوی ریلیاں کرنے والے ورون خود بھی اپنی ریلیوں میں نہ اٹل، اڈوانی اور نہ ہی مودی کا کوئی ذکرکرتے ہیں ۔ وہ اپنی تقریر کی شروعات میں گاؤں والوں سے کہتے ہیں کہ گاؤں کی طرف سے کوئی ایک مالہ پہنادے کیونکہ وہ تو یہیں کے ہیں۔اس کے بعد وہ سیدھی تقریر شروع کرتے ہیں کہتے ہیں یہ چناؤ اس لئے اہم ہے کیونکہ ہم نے عظم کیا ہے کہ سلطانپور میں نئے دور کا آغاز کرنا ہے۔ ذات پات کو نہیں مانتا میں ایسی سیاست کرنا چاہتا ہوں جہاں دھرم اور ذات پات کے لئے کوئی جگہ نہ ہو۔ مجھے پتہ ہے کہ یہاں کے لوگ محنتی ہیں ،ضمیر والے ہیں پھر بھی یہ علاقہ پسماندہ ہے ،وجہ ہے علاقے کو ابھی تک صحیح لیڈر شپ نہیں مل سکی۔ تالیوں کے درمیان کہتے ہیں سیاست میں اس وقت غرور بھر چکا ہے۔ وہ لوگوں کو جذباتی کرتے ہیں اور کہتے ہیں میں یہاں نیتا نہیں بھائی اور بیٹے کی شکل میں آیا ہوں۔ میری ماں کہتی ہیں جہاں مہلائیں ہوتی ہیں وہیں لکشمی کا آشیرواد ہوتا ہے اور یہاں تو مجھے لگا ہے کہ لکشمی کا زیادہ ہی آشیرواد ملے گا۔ وہ سلطانپور کیسے پہنچے۔ اس کے جواب میں ورون کہتے ہیں کہ دراصل میں ایسا علاقہ چاہتا تھا جس سے میرا جذباتی رشتہ ہو۔ پیلی بھیت میں مجھے مسلسل کامیابی ملتی رہی ہے۔انہوں نے وہ سیٹ سیکھنے کے لئے دی تھی لیکن اب وقت آگیا ہے میں ا پنی بنیاد خود تیار کروں اس لئے سلطانپور کو میں نے اپنے کام کے لئے چنا ہے۔ پچھلے دنوں ورون گاندھی نے اپنے تایا ذات بھائی راہل گاندھی کے ذریعے امیٹھی میں کئے کام کی تعریف تھی جس سے تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا۔ ٹیچروں کی ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے ورون نے کہا تھا کہ جس طرح امیٹھی میں راہل جی نے خود مددگار گروپوں کے ذریعے عورتوں کو روزگار سے جوڑا ہے اسی طرح چھوٹی صنعتوں کی سلطانپور میں زیادہ ضرورت ہے۔ امیٹھی میں کام کاج کے لئے راہل گاندھی کی تعریف کیا ورون گاندھی نے سوچ سمجھ کر کی تھی؟ حالانکہ بعد میں ورون نے صفائی بھی دی کہ ان کا مقصد کسی پارٹی یا پھر امیدوار کی مدد کرنا نہیں ہے لیکن مانا جارہا ہے کہ ورون کے اس بیان سے بی جے پی خاص کر امیٹھی سے بی جے پی امیدوار اسمرتی ایرانی کو شاید پریشانی ہو۔ سیاسی واقف کاروں کا کہنا ہے کہ ورون کے اس بیان کے کئی معنی ہیں کیونکہ اس بار خود ورون بھی امیٹھی کے قریب سلطانپور سیٹ سے امیدوار ہیں۔ ورون پچھلی بار پیلی بھیت سے چناؤلڑے تھے۔ امیٹھی کی طرح ہی سلطانپور میں بھی گاندھی خاندان کا دبدبہ رہا ہے ایسے میں وہ اپنی کسی تقریر میں راہل گاندھی کی تعریف کرتے ہیں تو ظاہر ہے انہیں سلطانپور میں بھی اس کا فائدہ ملے گا۔ اسی بہانے انہوں نے سلطانپور کی جنتا کو یہ بھی یاد کروادیا کے وہ بھی گاندھی خاندان کے ہیں۔ سلطانپور سے 2004ء میں بسپا سے محمد طاہر ایم پی بنے تھے اور 2009ء میں ڈاکٹر سنجے سنگھ ریکارڈ ووٹوں سیجیتے تھے جب ورون سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی کمپین میں نہ تو مودی کا نام لیتے ہیں اور نہ ہی بھاجپا کا ،تو انہوں نے جواب دیا میری تقریر غریبوں کو بھروسہ دلانے کے لئے ہے۔ میں لوگوں سے کہہ رہا ہوں آپ میرا ساتھ دیجئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!