اقلیتوں کی نظر اندازی پر پی ایم کے اجلاس میں ہنگامہ

وزیراعظم منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی کی موجودگی میں بدھوار کوحکومت کی ہائی پروفائل اقلیتی کانفرنس میں جم کر ہنگامہ ہوگیا جب ایک شخص نے کھڑے ہو کر حکومت پر اقلیتوں کو نظر انداز کرنے کے الزام لگایا اپنی تقریر میں جب وزیراعظم اقلیتوں کے 15نکاتی پروگرام کے تحت کئے گئے کاموں کو لے کراپنی سرکار کی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے جب ہی ایک شخص نے اسکیموں کو زمین پر نہ اتارنے کا الزام جڑ دیا۔ وگیان بھون میں وقف ڈیولپمنٹ کارپوریشن پروگرام کے دوران تقریر کے پیچ میں مشرقی دہلی سے تعلق رکھنے والے شخص ڈاکٹر فہیم بیگ نے کہا کہ وزیراعظم صاحب آپ کی ایک بھی اسکیم حقیقی طور پر نافذ نہیں ہوئی ہے حالات یہ تھی کہ ایک طرف وزیراعظم اپنی تقریر فرما رہے تھے تو دوسری طرف یہ شخص یوپی اے سرکار کے دعوؤں کو چلا چلا کر جھوٹا قرار دے رہا تھا افراتفری کے درمیان سونیاگاندھی نے اس سے بات کرنی چاہی لیکن تب تک سیکورٹی عملہ اسے ہال کے باہر لے جاچکا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اقلیتی امور کے وزیر رحمان خاں کو احتجاج ظاہر کررہے شخص کی شکایت سننے کی ہدایت دی وزیر موصوف نے ڈاکٹر فہیم بیگ سے بات کرنے کے بعد صفائی پیش کی انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر فہیم بیگ مشرقی دہلی کے ایک سماجی کارکن ہے اورجعفرآباد میں رہتے ہیں اور ان کا کہناتھا ان کے علاقے میں اقلیتوں کے لئے اعلان کردہ اسکیمیں نافذ نہیں ہوپائیں اس شخص نے بعد میں پریس سے کہا کہ اس نے اقلیتوں کو لے کر چلائے جارہے پروگراموں کے بارے میں وزیراعظم کو 150 سے زائد بار خط لکھیں ہے لیکن ایک خط کابھی جواب نہیں ملا۔ کانگریس کے ترجمان م۔ افضل نے مانا ہے کہ دہلی میں اقلیتوں کی اسکیموں کو نافذ کرنے میں کچھ دقتیں آرہی ہے اترپردیش اور بہار میں بھی اس طرح کی شکایتیں ملتی رہی ہیں اس بارے میں اقلیتی امور وزارت جلد ہی ریاستی حکومت سے بار کرے گی اس کے ساتھ ہی کانگریس نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ بارہویں پانچ سالہ منصوبے میں اقلیتیوں کی بے بہود کے لئے17555 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ڈاکٹر فہیم بیگ اس طرح وزیراعظم کے پروگرام میں یوں ہنگامہ کرنا شاید ٹھیک طریقہ نہیں تھا ۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب 150 خطوط میں سے ایک کا بھی جواب نہ ملے تو فہیم نے یہ راستہ اپنایا تھا چونکہ وہ مجبور تھے اور کوئی راستہ بچا نہیں تھاڈاکٹر فہیم بیگ کے احتجاج سے کانگریس اور منموہن سرکار دونوں سکتے میں آگئی ہے پچھلے دس برسوں میں حکومت نے اقلیتوں کے لئے تمام کام کرنے کادعوی کیا ہے لیکن بنیادی سطح پر کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا ہے کانگریس سیاست میں مسلم اقلتیں بد حال ہے۔ پروگرام میں موجود ایک اور مسلم لڑکے نے کہا کہ احتجاج کو ایک علامتی ہے ایک مسلم نوجوان کے احتجاج کے بعد اس کی پریشانی سن لینے سے کام نہیں چلے گا حقیقت یہ ہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے جتنے بھی کمیشن اور کمیٹیاں بنی ان کی رپورٹ کانگریس سرکار نے ابھی تک لاگو نہیں کی۔مرکزی سرکار محض اخباروں اور ٹی وی پر اقلیتوں کی ترقی کا پروپیگنڈہ کررہی ہے لیکن اصلیت میں مسلم اقلیتوں کی بہبودی نہیں ہوپارہی ہے آج بھی مسلمان ناخواندہ ہے روزگار کے لئے انہیں در در بھٹکنا پڑرہا ہے ایسے میں جب لوک سبھا چناؤ سر پر ہو تو اس طرح کھلے عام احتجاج کانگریس پارٹی کو بھاری پڑسکتا ہے ووٹ بینک سیاست میں حاوی ہوسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟