گرماتا اترپردیش کا سیاسی اکھاڑا!

گورکھپور اور وارانسی میں دوری 200 کلو میٹر کی ہے لیکن جمعرات کو سپا پرمکھ ملائم سنگھ یادو و بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی نے ایک دوسرے پر تلخ الفاظوں کے تیر چلائے تو لگا کہ دونوں نیتاؤں کے منچ آمنے سامنے سجے ہیں۔ حملے ایک دوسرے کو حیثیت یاد دلانے کی حد تک پہنچ گئے۔اترپردیش کا سیاسی میدان بھاجپا بنام سپا میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ حالانکہ جمعرات کو مودی بنام ملائم سیاسی جنگ نظر آئی ۔دونوں نیتاؤں کی یہی کوشش رہی کہ یوپی کی چناوی جنگ میں کانگریس کو اہم مقابلے سے دور رکھا جائے۔ صرف الفاظ سے ایک دوسرے پر حملے نہیں ہوئے بلکہ ووٹوں کے انتظام کیلئے ہر بات پر نظر بھی ٹکی رہی۔ جمعرات کو ہی امیٹھی میں راہل گاندھی بھی پہنچے اور منشی گنج گیسٹ ہاؤس میں مقامی نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’میں بھونپو نہیں ہوں‘‘۔ ان کے پتا سورگیہ راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ بس کام کرنا بھونپو مت بننا۔ کانگریس دیش کے لئے ایک ویژن لیکر چل رہی ہے جو کچھ وقت بعد دکھے گا۔ دراصل دونوں ملائم سنگھ یادو اور راہل گاندھی کی چنتا اس سے بھی بڑھ گئی ہوگی کہ تمام میڈیا سرووں میں لگاتار نریندر مودی اور بھاجپا کی بڑھت دکھائی جارہی ہے۔اگر بھیڑ ہردلعزیزی ظاہر کرتی ہے تو گورکھپور کی ریلی میں ریکارڈ توڑ بھیڑ تھی۔ اس سے بڑی ریلی اترپردیش میں کسی کی نہیں ہوئی۔تازہ سرووں میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس بار یوپی میں بھاجپا کا دبدبہ بڑھنے والا ہے کیونکہ دھیرے دھیرے مودی کی لہر پھر سے بڑھنے لگی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پردیش کی 80 سیٹوں میں بھاجپا کے پاس کل 10 سیٹیں ہیں۔ 2004ء کے چناؤ میں بھی اسے اتنی ہی سیٹیں ملی تھیں اس بار2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کو35 سے40 سیٹیں مل سکتی ہیں جبکہ سپا اور بسپا کا چناوی گراف نیچے گرے گا۔ سب سے خراب حالت کانگریس کی بتائی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس چناؤ میں کانگریس کو 21 سیٹوں کے مقابلے3-4 سیٹوں پر ہی سنتوش کرنا پڑ سکتا ہے۔ حالانکہ سرووں کی وشوسنیتاپر سوال اٹھائے جاتے ہیں پر پھر بھی اندازہ تو کم سے کم نظر آتا ہی ہے۔ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی بنا اعلان کے پارٹی کے پی ایم ان ویٹنگ ہیں۔ امیٹھی دورہ پر انہوں نے لوگوں کو خود کہہ دیا کہ اگر چناؤ میں جیت ملتی ہے اور پارٹی کے سانسد انہیں اپنا نیتا چنتے ہیں تو وہ پردھان منتری عہدے کی ذمہ داری سنبھال لیں گے۔ پہلی بار عوامی طور پر راہل نے یہ ذمہ داری سنبھالنے کی بات کی ہے۔ مظفر نگر فساد کے بعد یوپی کی اقلیت سپا سے کٹ چکی ہے۔یہ یا تو بسپا کو ووٹ دیں گے یا پھر کانگریس کو۔ سرووں کے مطابق بسپا یوپی میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے۔اسے 24 سیٹوں پر جیتنے کا امکان دکھائی دیتا ہے۔ اے بی پی نیلسن سروے کے مطابق بھاجپا اترپردیش کے بندیل کھنڈ میں دو سیٹیں جیت کر کھاتہ کھولے گی۔ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں پارٹی یہاں کھاتہ نہیں کھول پائی تھی۔وہیں پشچمی اترپردیش میں دبدبہ رکھنے والی چودھری اجیت سنگھ کی پارٹی راشٹریہ لوک دل کو محض 1 سیٹ کا نقصان ہوگا۔ پارٹی کو4 سیٹوں پر جیت ملنے کا امکان ہے وہیں عام آدمی پارٹی کا جلوہ یوپی میں زیادہ نہیں دکھائی دے رہا ہے اور سروے میں اسے محض2 سیٹوں پر جیتنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ دہلی کی گدی کا راستہ یوپی سے ہوکر جاتا ہے اور فی الحال اس ریس میں نریندر مودی سب سے آگے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟