امریکہ میں تو ہر پانچویں خاتون آبروریزی کا شکار!

پوری دنیا میں ہی آبروریزی کا مسئلہ بڑھتا جارہا ہے۔ ہم اپنے دیش میں اور دہلی میں آبروریز افراد کو لیکر حیران پریشان ہیں لیکن دنیا کے سب سے بڑے طاقتور اور خوشحال ملک امریکہ میں ان واقعات کے اعدادو شمار دیکھ کر تو ہم چوک گئے ہیں اوررپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر ایک پانچ میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں آبروریزی کاشکار ہوتی ہے اور آدھی سے زیادہ عورتیں 18 سال کی عمر سے پہلے ہی اس حملے کا سامنا کرتی ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی ایک رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ سبھی طبقوں ،نسلوں اور دیش کی عورتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن کچھ عورتیں کو دیگر کے مقابلے زیادہ شکار ہوتی ہیں۔33.5 فیصدی کثیر نسلی عورتوں سے آبروریزی کی گئی ہے جبکہ امریکی بھارتی نژاد اور الاسکانیو 27فیصد عورتوں کا ہوس کا شکار بنایا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آبروریزی کی شکارہونے والی زیادہ تر عورتوں پر ان کے واقف کاروں نے ہی یہ حملہ کیا اور98 فیصدی حملہ آور مرد تھے۔قریب2 کروڑ 20 لاکھ امریکی عورتوں اور 16 لاکھ مردوں کو اپنی زندگی میں آبروریزی کا شکار ہونا پڑا ہے۔ وائٹ ہاؤس کونسل کی صدر براک اوبامہ کی صدارت میں ہوئی کیبنٹ سطح کی میٹنگ سے پہلے وائٹ ہاؤس نے یہ رپورٹ جاری کی ہے۔ امریکہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں عورتیں آبروریزی یعنی جنسی استحصال کے معاملوں میں زیادہ شکارہورہی ہیں۔ کیمپس میں جنسی اذیتوں کے واقعات کو شراب اور نشیلی چیزوں کے استعمال سے بڑھاوا ملتا ہے جو متاثرین کو کمزور بنا دیتا ہے۔ جرائم کرنے والا بھلے ہی سیریل ملزم ہوتے ہیں خود صدر اوبامہ نے امریکہ کے کالجوں میں جنسی استحصال کے بڑھتے واقعات پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ انہوں نے ایسے معاملوں میں کالجوں ،یونیورسٹیوں اور پولیس کی ذمہ داری پختہ کرنے کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے ان اداروں پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ ساتھ ہی سینئر افسران کی ایک ٹاسک فورس بھی بنا رہے ہیں جو اس سلسلے میں سرکاری کوششوں میں تال میل بنائے گی۔ صدر اوبامہ نے ان خامیوں کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے جن کی وجہ سے جنسی استحصال اور آبروریزی کے واقعات اکثر گمنامی میں دبادئے جاتے ہیں۔ بدنامی کے ڈر سے کالجوں میں جنسی استحصال کی شکار طالبات سامنے نہیں آتیں۔ پولیس کو ایسے معاملوں کی جانچ کے لئے سنجیدگی سے ٹریننگ نہیں دی جاتی۔ پھر یونیورسٹی بھی اپنی ساکھ کم ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات کو دبانا ہی بہتر متبادل سمجھتی ہیں۔ کل18 معاملوں میں سے محض1 معاملہ درج ہوپاتا ہے۔ 7 فیصدی مردوں نے ہی آبروریزی کی کوشش کرنے کی بات مانی ہے۔ 2.22 کروڑ کے قریب عورتیں اپنی زندگی میں آبروریزی کا شکارہوتی ہیں۔ بیشک اوبامہ نے صاف کہا کہ ہمیں نوجوانوں ،مردوں اور عورتوں کو حوصلہ افزاکرنے کی ضرورت ہے کہ جنسی استحصال ناقابل قبول ہے۔ انہیں بہادری سے کھڑا ہونے کی ضرورت ہے خاص کر جب ان پر منہ کھولنے کے نتیجوں کا ڈر دکھاتے ہوئے چپ رہنے کا سماجی دباؤ ہو۔ باقی دنیا میں بھی یہ مسئلہ بڑھتا جارہا ہے۔ بھارت میں بھی آبروریزی اور جنسی استحصال ایک سماجی جرائم کا مسئلہ ہے۔ نربھیا کانڈ کے بعد بھارت میں کئی قانونی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ آبروریزوں کو سخت سزا دینے کے ارادے سے اینٹی ریپ بل 2013ء لایا گیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس سے زیادہ سماج کا نظریہ بدلنا ہوگا چاہے وہ بھارت ہو یا امریکہ ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!