موضوع بحث بنا راہل گاندھی کا انٹرویو!

ایک انگریزی ٹی وی چینل ’ٹائمس ناؤ ‘میں راہل گاندھی کی اورنبے گوسوامی کے ساتھ ہوئی بات چیت دیکھ کر بہت دکھ اور مایوسی ہوئی۔ راہل گاندھی کے اس انٹرویو کا انتظار ہر کوئی کررہا تھا۔ پارلیمنٹ میں قدم رکھنے کے 10 سال بعد وہ پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر میڈیا کے چبھتے سوالوں سے روبرو ہوئے تھے۔ پارٹی میں بھلے ہی راہل نائب پردھان کے عہدے پر ہوں لیکن ان کی اصلی حیثیت سارا دیش جانتا ہے کے وہی کانگریس کی جانب سے پی ایم عہدے کے اکیلے دعویدار ہیں۔ مجھے اس انٹرویو سے زبردست مایوسی ہوئی اور دکھ بھی۔ گوسوامی جیسے منجھے ہوئے اینکر کے سامنے راہل کا وہ حال تھا جیسے شیر کے سامنے میمنے کا ہوتا ہے۔ ایک انگریزی تجزیہ نگار چینل کو پہلا انٹرویو دینا ہی میری رائے میں غلط تھا۔ اگر انٹرویو دینا ہی تھا تو کسی ہندی چینل وہ بھی جو تھوڑا کانگریس کے تئیں وفاداری رکھتا ہو اس کو دینا چاہئے تھا۔ انگریزی چینلوں کو دیش کے سب سے زیادہ انگریزی بولنے والے لوگ دیکھتے ہیں یہ بیشک اثر تو رکھتے ہیں لیکن کثرت سے ووٹ دینے نہیں نکلتے۔ پھرراہل نے وہی رٹی رٹائی کہانی پر بولا۔ سوال کچھ تھا جواب کچھ۔ راہل گاندھی نے سارا زور خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے پر دیا۔ 1984ء کے دنگوں پر راہل کو میری رائے میںیہ کبھی نہیں کہنا چاہئے تھا کہ ہوسکتا ہے کہ کچھ کانگریسی ان دنگوں میں شامل رہے ہوں۔ اگر مجھے جواب دینا ہوتا تو میں یہ ہی کہتا کانگریس پارٹی ان دنگوں میں بالکل شامل نہیں تھی۔ اگر کوئی نیتا اس میں شامل تھا تو عدالت طے کرے گی اور طے کرنے کے بعد قانون اپنا کام کرے گا۔ پارٹی کے تمام لیڈر تو اندرا جی کی لاش کے ساتھ تھے ہمارا ان دنگوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ جب یہ پوچھا گیا کہ اگر اروند کیجریوال سرکار شیلا دیکشت اور ان کے وزرا کے خلاف کارروائی کرے گی تو کانگریس حمایت واپس لے سکتی ہے؟ راہل گاندھی کو جواب دینا چاہئے تھا کہ ہم پاک صاف ہے ، ہم نے کوئی کرپشن نہیں کیا اگر کیا ہوتا یا ہمارے دل میں چور ہوتا تو ہم کیجریوال جیسے دھاک کو دہلی کی گدی پر نہ بٹھاتے۔ راہل میں نریندر مودی کا خوف کتنا ہے صاف ہوگیا ہے۔ انہوں نے اس حد تک کہہ ڈالا کہ2002 کے گجرات دنگوں میں شامل تھی مودی سرکار۔ انہیں اس حد تک نہیں جانا چاہئے تھا۔ عدالتوں نے مودی کو کلین چٹ دے دی ہے۔ پر بھی اگر راہل ایسی بات کرتے ہیں تو اپنے خوف زدہ ہونے کا اظہار کررہے ہیں۔ان کی امید تھی کہ وہ اپنے ویژن کو دیش کے سامنے رکھتے۔ مہنگائی پر کیسے قابو پانا چاہتے ہیں اس پر مفصل رائے رکھتے۔ گھوٹالوں کو روکنے پر بیشک انہوں نے کچھ اٹھائے گئے قدموں کا ذکر کیا لیکن اس کو زور دار ڈھنگ سے نہیں اٹھایا۔ بے روزگاری کم کرنے اور نوجوانوں میں جوش پیدا کرنے کے اقدامات پر تفصیل سے بتانا چاہئے تھا۔ خارجہ پالیسی ،اقتصادی پالیسیوں پر اپنے نظریئے کو رکھنا چاہئے تھا۔ اصل میں دقت یہ ہے کہ پچھلے 9-10برسوں سے راہل ’آن۔ آف‘ ہوتے رہے ہیں۔ انہیں سرکار کی اقتصادی پالیسیوں میں زیادہ مداخلت نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اگر آج کانگریس کی یہ قابل رحم حالت بنی ہے تو اس کی خاص وجہ ہے منموہن سنگھ کی اقتصادی پالیسیاں۔ راہل اس پوزیشن میں تو تھے ہی کہ وہ چاہتے تو عوام مخالف پالیسیوں کی مخالفت کرتے اور ان کو لاگو نہ ہونے دیتے۔ اب جب پانی سر سے گزر گیا ہے پچتاوے سے کیا فائدہ؟ راہل سے زیادہ میں ان کے مشیروں کو ہوم ورک کروانے والوں کو ذمہ دار مانتا ہوں۔ وہ پورے انٹرویو میں ہوم ورک کے بغیر دکھائی دئے۔ ان کے پاس دلائل پورے نہیں تھے اور کئی پرانی معلومات کے بارے میں کمی دکھائی دی۔ سیدھے سوالوں سے بچتے رہے ہیں اور کئی سوالوں پر کمزور دلائل پیش کئے۔ عام چناؤ اور موجودہ مسائل مثلاً مہنگائی۔ کرپشن کے سوال پر کوئی ردعمل نہیں۔سسٹم بدلنے کی بار بار بات راہل گاندھی کرتے دکھائی دئے لیکن ان ساتھ ساتھ وہ تضاد میں بھی پھنستے نظر آئے۔ کل ملا کر اس انٹرویو میں کچھ اچھی باتیں بھی رہیں۔ پہلی بات تو راہل کھل کر چناوی جنگل میں کودتے نظر آئے۔ ایک گھنٹے تک چلے اس انٹرویو میں راہل نے اپنے توازن کو بنائے رکھا اور ویسے سوالوں کا جواب نہیں دیا جن کا جواب وہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ راہل کے انٹرویو کے بعد نریندر مودی پر بھی سوالوں کا سامنا کرنے کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ مودی نے بھی کافی عرصے سے کوئی انٹرویو نہیں دیا ہے۔ راہل نے خود کو سسٹم سے لڑنے والے لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جسے مڈل کلاس طبقے میں پسند کیا جاتا ہے اور آخر میں اس انٹرویو کی بدولت وہ سرخیوں میں تو آئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟