اور اب پشچمی بنگال کی بربرپنچایت نے اجتماعی آبروریزی کروائی!

ایک بار پھر بربر پنچایت کا ایک شرمناک فرمان سننے کو ملا ہے۔ قصہ ہے پشچمی بنگال کے ویر بھوم ضلع کا۔ ضلع کے لامپور بلاک میں ایک آدی واسی لڑکی کو منگلوار رات دوسری ذات کے نوجوان کے ساتھ بیٹھے دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد دونوں کو پیڑ سے باندھ کر پنچایت بلائی گئی۔ پنچایت نے دونوں کے پریوار والوں سے 25-25 ہزار روپے جرمانے کی رقم دینے کو کہا۔ نوجوان کے پریوار والوں نے جرمانے کی رقم دے دی اور اسے چھوڑ دیا گیا لیکن لڑکی کے پریوار نے تین ہزار روپے دیکر باقی رقم نہیں ہونے کی بات کہی تو پنچایت کے حکم پر اس کے ساتھ 12 لوگوں نے اجتماعی زنا کیا۔ بدھوار کو وہ خون سے لت پت ایک جھونپڑی میں ملی۔ پریوار کے معاملہ درج کرانے کے بعد حکم دینے والے پنچایت پرمکھ و سبھی زانیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ لڑکی کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ پڑوس کے گاؤں کے ایک غیر آدی واسی لڑکے سے پیار کرتی تھی۔ لڑکی خود آدی واسی تھی۔ سوموار رات لڑکا شادی کا پیغام لیکر اس کے گھر آیا۔ گاؤں والوں نے لڑکے کو دیکھ لیا۔ سب کے سب اس کے گھر جمع ہوگئے اس کے بعد پنچایت بیٹھی۔ پھر کیاہوا یہ اوپر میں نے بتا ہی دیا ہے۔ متاثرہ لڑکی نے بتایا گاؤں کے لوگ میرے بیہوش ہونے تک گندا کام کرتے رہے پتہ نہیں کتنے لوگوں نے کیا لیکن کم سے کم 10-12 لوگ تو تھے ہی اور یہ کچھ ایک ہی پریوار کے تھے۔ زنا کرنے والوں میں لڑکی کے چھوٹے بھائی سے لیکر اس کے پتا کی عمر تک کے لوگ شامل تھے۔ متاثرہ لڑکی کی عمر20 سال ہے۔ پشچمی بنگال کے ترقی خواتین اطفال وزیر ششی پانجا نے بتایا کہ لڑکی اسپتال میں ہے۔ پولیس کے علاوہ کمیشن بھی معاملے کی جانچ کرے گا۔ واقعہ کو لیکر زبردست مخالفت ہورہی ہے۔ گورنر ایم کے نارائنن نے بھی کارروائی کی مانگ کی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ پہلا ایسا واقعہ نہیں ہے۔ویر بھوم ضلع میں پنچایت نے2010 ء میں بھی ایسی ہی سزا سنائی تھی۔ تب ایسے ہی معاملے میں لڑکی کو ننگا کرکے گاؤں میں گھمایا گیا تھا۔واقعہ کا ویوڈیوبھی بنایا گیا تھا۔ریاست میں لگاتار ہورہے زنا کے واقعات پر حسب اختلاف نے ممتا سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ کانگریس کے پردیش ادھیکش پردیپ مہا چاریہ نے 28جنوری سے پردیش بھر کے تھانوں کے سامنے ورودھ پردرشن کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بھاگپا ریاستی سکریٹری ومن بوس نے کہاکہ سرکار زنا کی وارداتوں پر روک لگانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ واقعہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی سے گزر رہے سماج میں ایک تراسدی اور غیر یقینی سی لگتی ہے لیکن پنچایت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے قریب 13 لوگوں نے اس لڑکی کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی۔ ایسا کرنے والوں میں علاقے کے وہ لوگ بھی شامل تھے جنہیں وہ لڑکی کاکا، دادا اور بھائی کہہ کر بلاتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ عام جرم کے الزام میں بھی بھولے بھالے گاؤں والوں کو پریشان یا گرفتار کرکے مستعدی درج کرانے والی پولیس یا دوسرے سرکاری افسران ایسے واقعات سے کیسے انجان رہ جاتے ہیں؟ کیا یہ چکاچوند میں ڈوبے کچھ مہا نگروں کے برعکس صرف دور دراز کے پچھڑے علاقوں میں پہنچنا مشکل ہے یا پھر ان کی لاپرواہی کے چلتے لوگوں کو پنچایت بٹھاکر ایسی مجرمانہ واردات کو انجام دینے میں کوئی ہچک نہیں ہوتی۔ ہریانہ اور پشچمی اترپردیش کی کھاپ پنچایتوں کا رویہ بدلہ نہیں ہے جہاں گاؤں یا جاتی کے سوال پر بربر طریقے سے پریمی جوڑوں پر کئے گئے حملوں کے معاملے اکثر سامنے آتے ہیں۔ اب ان علاقوں میں پشچمی بنگال کی پنچایت بھی جڑ گئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟