جے ڈی یو سے پرشانت کشو راور پون ورما کی چھٹی

جنتا دل یو نے اپنے قومی نائب صدر و چناﺅ حکمت عملی ساز پرشانت کشو ر اور قومی سیکریٹری جنرل پون ورما کو پارٹی سے برخواست کر دیا ہے ۔جے ڈی یو کے دوسرے نیشنل جنرل سیکریٹری کے سی تیاگی نے دونوں کی تمام ذمہ داریاں لے کر انہیں جے ڈی یو کی پرائمری ممبر شپ سے ہٹائے جانے کا حکم جاری کر دیا ۔چناﺅی حکمت عملی ساز پرشانت کشو ر جب جے ڈی یو میں شامل ہوئے تھے تو انہیں پارٹی کا نائب صدر کا عہدہ دے کر نوازہ گیا تھا ۔لیکن شہریت ترمیم قانون اور این آر سی پر مسلسل احتجاج کی وجہ سے دونوں کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی حالیہ دنوں میں کئی اشو کو لے کر نتیش اور پرشانت میں زبانی جنگ بھی ہوئی آخر کار یہ جوڑی ٹوٹ گئی پارٹی کے جنرل سیکریٹری پون ورما کو بھی انہیں وجوہات سے پارٹی سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا بتا دیں کہ پون ورما نے دہلی میں جے ڈی یو بھاجپا اتحاد پر سوال اُٹھائے تھے ۔اور خط لکھ کر اس فیصلے پر نتیش سے سوال پوچھے تھے انہوںنے خط کو جنتا کے سامنے لا دیا تھا جس کو لے کر نتیش نے ناراضگی جتائی تھی اس سے پہلے بھی پون ورما نے سی اے اے پر وزیر اعلیٰ سے کئی سوال پوچھے تھے پرشانت کشور سی اے اے ،این آر سی ،اور این پی آر کی مخالفت کر رہے ہیں ۔انہوںنے سی اے اے کی مخالفت کرنے کے لئے کانگریس صدر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو شکریہ کہا تھا ۔کیونکہ انہوںنے کہا تھا کہ بہار میں این آر سی اور سی اے اے لاگو نہیں ہوگا ۔ایک دن پہلے ہی نتیش نے کہا تھا کہ ہم کسی کو پارٹی میں لائے تھے امت شاہ کے کہنے پر پرشانت کشور کو پارٹی میں شامل کیا گیا تھا ۔اب وہ جانا چاہتے ہیں تو جائیں اس پر پرشانت نے ٹوئٹ کیا کہ آپ مجھے پارٹی میں کیوں اور کیسے لائے اس پر اتنا گر ا ہوا جھوٹ بول رہے ہیں پی کے کا جے ڈی یو کے ساتھ سفر پچاس دنوں تک رہا جبکہ پون ورما چھ سال تک جے ڈی یو کے ممبر رہے اگر پرشانت اور ورما کی مخالفت صرف اشوز پر مرکوز ہوتی تو الگ بات تھی لیکن ان دونوں سے سیدھے سیدھے نتیش کمار پر حملہ بولا گیا جو پارٹی کی ڈسی پلن شکنی کے خلاف تھا یہ دونوں نہ تو مائنڈیٹ والے نیتا ہیں اور نہ ہی ان کے جانے سے جے ڈی کو کوئی زیادہ نقصان ہونے والا ہے تب تو اور نہیں جب پرشانت کم وقت میں ہی نمبر دو کی حثیت بن جانے سے پارٹی کے پرانے سینر لیڈر ان سے خار کھائے بیٹھے تھے اس کے باوجود دونوں کو باہر کرنے کا نتیش کمار کے بارے میں یہ تصور مضبوط ہوگا کہ وہ اپنی نکتہ چینی برداشت نہیں کر سکتے ۔نتیش نے سی اے اے کے مخالفوں کو تو خاموش کر دیا لیکن پارلیمنٹ میں سی اے اے کی حمایت کرنے کے باوجود این آر سی این پی آر پر وہ خود بھی بھاجپا سے پوری طرح متفق نہیں ہیں ۔ایسے بھی اگر امت شاہ کے کہنے پر نتیش نے پرشانت کو پارٹی میں شامل کیا اور سیدھے نائب صدر بنا دیا تھا تو یہ خود ان کی سمجھ کا بھی سوال ہے کچھ سال پہلے عآپ میں بھی لیڈر شپ پر سوال کھڑے کرنے والے یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کی بھی اسی طرح سے عآپ سے وادی ہوئی تھی یہ پارٹی ڈسی پلین کی خلاف ورزی کی مثال کے ساتھ سیاسی پارٹیوں میں جمہوری اقدار کے مضر اثرات کو ظاہر کرتے ہیں جہاں لیڈ شپ پر سوال کرنا بھاری پڑتا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟