دہلی چناﺅ بساط پر شہریت ترمیم قانون

شہریت ترمیم قانون (سی اے اے)کو لے کر پیدا تحریک کی آواز دن بدن رکنے کے بجائے الٹی تیز ہو رہی ہے دہلی اسمبلی چناﺅ کے مشکل سے چند دن بچے ہیں اور جس طرح شاہین باغ سرخیوں میں چھایا ہوا ہے اس سے تو یہ نہیں لگتا کہ اس تحرک کی آنچ دہلی اسمبلی چناﺅ تک نہیں پہنچے گی خاص کر مسلم ووٹر اور دہلی اسمبلی کی مسلم اکثریتی سیٹوں پر اس کا اثر ضرور دکھائی دینے والا ہے ۔حالانکہ سیاسی پارٹیوں کی آغازکے مطابق اپنی حکمت عملی پر چل رہی ہیں۔دہلی کی چناﺅی بساط پر مسلم ووٹروں کی تعداد بارہ فیصد سے زیادہ ہے اور انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے ۔دہلی کی سیاست میں 70اسمبلی سیٹوں میں سے 8سیٹوں کو مسلم اکثریتی مانا جاتا ہے اس میں بلی ماران شیلم پور ،اوکھلا،چاندنی چوک،مصطفی آباد ،مٹیا محل ،بدر پور،اور کراڑی شامل ہیں ۔یہ ایسی سیٹیں ہیں جہاں امیدواروں کا مستقبل طے کرنے میں مسلم ووٹر کا اہم رول ہوتا ہے ۔مسلم ووٹروں کے لحاظ سے ترلوک پوری ،سیما پوری،بھی کم اہم نہیں ہیں ۔یہاں بھی مسلم ووٹر چناﺅ نتیجوں کو متاثر کرنے میں اہل ہیں ۔دہلی اسمبلی بھلے ہی ستر سیٹوں والی ہو یہ لیکن یہ چناﺅ قومی سیاست پر اثر ڈالنے والا ہے ۔سی اے اے کو لے کر شاہین باغ کی سرخیاں جہاں تیزی سے دیگر ریاستوں میں پھیل رہی ہیں ۔اس لحاظ سے دہلی اسمبلی چناﺅ کافی اہم ہو گیا ہے ۔حالانکہ دہلی مسلم ووٹر ایک یقینی طریقے سے ووٹ کرتا آرہا ہے اور اس کا جھکاﺅ جگ ظاہر ہے وہ کدھر جائے گا ۔دوسری طرف شہری ترمیم قانون جیسے اشوز کو لے کر اقلیتوں میں ناراضگی کے پیش نظر دہلی میں بھاجپا مخالف پارٹیوں کو بھاجپا کے حق میں اکثریتی طبقے کے پولرائزیشن ہونے کا بھی ڈر ستا رہا ہے ۔جس طرح سی اے اے کو لے کر مسلم ووٹروں کا پولرائزیشن ہوتا دکھائی دے رہا ہے اس کا تلخ رد عمل ہندو ووٹروں کے ایک بڑے طبقے میں ہونے لگا ہے ۔جس سے اپوزیشن پارٹیاں فکر مند ضرور ہو گئی ہیں ۔چونکہ ووٹروں کا یہ گروپ بھاجپا کے حق میں کھڑا ہوا تو یقینی طور سے چناﺅ میں بھاجپا مخالفین کے لئے مشکل ہو جائے گی دیش کی ریاستوں کے اسمبلی چناﺅ ہوں یا پھر لوک سبھا کے ،اکثریتی مسلم ووٹوں کا پورائزیشن بھاجپا کی مخالفت میں دکھائی پڑتا ہے ۔چناﺅ میں مسلم ووٹروں کی حمایت اکثر اسی پارٹی و امیدوار کو دکھائی دیتی ہے جو امیدوار بھاجپا کو ہرانے میں اہل ہو دہلی میں 2013کے اسمبلی چناﺅ میں دہلی کے مسلم ووٹروں کو عآپ کی مضبوطی کا اندازہ نہیں تھا اس لئے انہوںنے کانگریس کے حق میں ووٹ دے دیا ۔2015کے اسمبلی چناﺅ میں یہ عام آدمی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوئے تو دونوں کانگریس اور بھاجپا کا صفایا ہو گیا اس مرتبہ مسلم ووٹر عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں بٹتے دکھائی پڑتے ہیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟