برانڈ مودی بنام برانڈ کجریوال

حالانکہ بی جے پی نے دہلی کے اسمبلی چناﺅ کو اپنی ساکھ کا سوال بنا لیا ہے ۔لیکن سچ تو یہ ہے پارٹی کو دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کی کاٹ نہیں مل پار ہی ہے پارٹی صدر امت شاہ ایک ایک دن میں درجنوں نکڑ سبھائیں کر رہے ہیں ورکروں کے گھر کھانا کھا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود عام آدمی پارٹی کو ہرانا مشکل لگ رہا ہے ۔دیش کی سیاست کو ہمیشہ متاثر کرنے والی دیش کی راجدھانی دہلی ساتویں مرتبہ اسمبلی کے چناﺅ کے لے چند دن بچے ہیں سال 2013کے چناﺅ کی طرح یہ چناﺅ بھی بے حد خاص ہے تب اناّ ہزارے کے بھرسٹا چار آندولن کے سبب متبادل سیاست کی ہوا نے کانگریس کی سیاسی صحت خراب کر دی تھی تو اس مرتبہ ایک دو لوک سبھا چناﺅ میں بھاجپا کو دھماکے دار جیت درج کرانے والے برانڈ مودی ہیں ۔دوسری طرف 2014کے لوک سبھا چناﺅ نے کراری ہار کے بعد پچھلے اسمبلی چناﺅ میں عآپ کو 67سیٹیں دلانے والے برانڈ کجریوال کونسہ برانڈ سیاست کے بازار میں کھرا اُترتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا ۔دہلی کے چناﺅ نتائج کو متاثر کرنے والے خاص طور سے تین پہلو ہوں گے پہلا پہلو مودی ہوں گے مثلا کیا دہلی کی جنتا لوک سبھا چناﺅ کی طرح برانڈ مودی پر بھروسہ کریں گے ؟اگر اس کا جواب ہے تو چناﺅ نتیجے کا سارا طلسم یہیں بکھر جاتا ہے ۔پچھلے لو ک سبھا چناﺅ میں بھاجپا کو 57فیصدی ووٹ حاصل ہوئے تھے جو کانگریس اور عام آدمی کے ووٹ فیصد سے 35اور 39فیصد ی زیادہ ہے۔حالانکہ لوک سبھا چناﺅ کے مقابلے بھاجپا کے ووٹوں میں ہریانہ میں 22فیصدی ،جھارکھنڈ میں 17فیصدی ووٹوں کی گراوٹ درج کی گئی ۔2014کے لوک سبھا چناﺅ میں کلین سوئپ کرنے کے بعد دہلی اسمبلی چناﺅ میں محض 3سیٹوں تک سمٹنا بتاتا ہے کہ محض مودی کے سارے چناﺅی نیا پار کرنا اتنا آسان نہیں ہے دوسرا اہم پہلو کانگریس کی پرفارمینس ہے قریب قریب ایک ہی ووٹ بینک کے سبب آپ کی ساری امیدیں کچھ حد تک اس بار کانگریس کی پرفارمینس پر بھی ٹکی ہیں مضبوط کانگریس بھاجپا کو تو کمزور اور کانگریس عآپ کو ناکام بناتی رہی ہے ۔2014اور2019کے لوک سبھا چناﺅ میں کانگریس کی پرفارمینس میں معمولی بہتری میں ساتوں سیٹوں کو بھاجپا کی جھولی میں ڈال دیا تھا ۔ایسے میں سوال ہے کہ دو سرکردہ ہستیوں شیلا دکشت کے چلے جانے اور اجے ماکن کے غائب ہونے کے سبب بے قیادت کانگریس اس چناﺅ میں اپنی صحت میں کتنی بہتری لائے گی ۔کانگریس نے حالانکہ کئی سرکردہ ہستیوں کو چناﺅ لڑنے پر مجبور کیا ہے ۔ان کی پرفارمینس پر کانگریس کا مستبقل منحصر کرے گا تیسرا اہم پہلو متبادل سیاست ے سہارے سیاست میں کھڑا ہوا برانڈ کجریوال ہے پارٹی کا نظریاتی پہلو رکھنے والے یوگیندر یادو،پرشانت بھوشن،کمار وسواش سمیت تمام سرکردہ نیتاﺅں نے یا تو عآپ سے توبہ کر لی ہے یا انہیں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ۔یہ پہلا عآپ پارٹی کا چناﺅ ہے اب پرانی ٹیم نہیں ہے اس لئے سارا دارومدار برانڈ کجریوال پر ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟