اسپیکر کے اختیارات پر غور کریں

دیش کے الگ الگ ریاستوں کی اسمبلیوں میں اکثر اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ ممبران کے برتاﺅ یا فیصلوں کو لے کر ایوان کے اسپیکر نے جو فیصلہ لیا وہ کتنا صحیح ہے اور کتنا انصاف پر مبنی ہے ؟ممبران میں ساجھیداری کرنے والی پارٹیوں کی طرف سے ایسے الزام لگتے رہتے ہیں کیونکہ اسمبلی اسپیکر کسی خاص پارٹی کے ممبر کی شکل میں ہے اس لئے ان کا فیصلہ اس سے متاثر ہوتا ہے ۔منی پور کے ایک وزیر کو ڈسکوالی فالی کئے جانے سے متعلقہ کانگریس ممبران اسمبلی کی ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے متعلقہ اسمبلی اسپیکر کو چار ہفتے میں اس پر فیصلہ لینے کے لئے کہا ہی ہے ساتھ ہی عدالت نے دل بدل معاملوں پر فیصلہ لینے کے لے ایک مختار نظام قائم کرنے کا پارلیمنٹ کو جو مشورہ دیا ہے وہ زیادہ اہم ترین ہے عدالت کا کہنا تھا کہ ممبران اسمبلی اور ممبران کو ڈسکوالی فائی کرنے سے متعلق ایوان کے اسپیکر کے پاورس پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔صاف طور پر عدالت کا مقصد ہے کہ اسپیکر سے مکمل طور پر منصفانہ حیثیت کی امید نہیں کر سکتے کیونکہ وہ بھی کسی سیاسی پارٹی کا ممبر ہوتا ہے عدالت کا یہ تبصرہ قابل غور ہے آئین کے دسویں سیکشن کے تحت دل بدل قانون کی حفاظت کرنا جمہوریت کے لئے بے حد اہم ترین ہے ۔دراصل منی پور کے وزیر جنگلات ٹی شیام کمار 2017میں کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے لیکن وزیر بننے کے لے بھاجپا میں شامل ہو گئے تھے کانگریس نے دل بدل قانون کے تحت انہیں ڈسکوالی فائی کرنے کے لئے اسپیکر کے سامنے کم سے کم دس عرضیاں دی تھیں لیکن کوئی سماعت نہیں ہوئی اسی معاملے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس روہت ٹن پھلی نریمن کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ممبران نے پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کو ڈسکوالی فائی کا فیصلہ لینے کے اسپیکر کے اختیارات پر پارلیمنٹ کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیونکہ سیاسی پارٹی سے جڑے ہونے کے سبب اسپیکر کے فیصلے میں جانبدارانہ پہلو اپنانے کی گنجائش ہوتی ہے ۔ہر نکتہ سے معاملے کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد عدالت نے کچھ اہم تجاویز دی ہیں جس سے ایوان کی اہمیت اور بھروسہ نہ ختم ہو مثلاََ عدالت نے مرکزی سرکار سے غور کرنے کو کہا ہے کہ کیا ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ کو ڈسکوالی فائی پر فیصلہ لینے کا حق اسپیکر کے پاس ہے یا اس کے لئے ریٹائرڈ ججوں کا پینل جیسی آزاد اتھارٹی قائم ہو فطری ہے ہندوستانی جمہوریت کے کردار کو بنائے رکھنے میں ایوان کے اسپیکرس کا چہیتا رول ہے لیکن اس عہدے میں آتے ہی بے لوث اور متضادات نے ہمیں شرمندہ کیا ہے بڑی عدالت نے اس معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے کئی برسوں سے غور و فکر ہو رہا تھا کہ اسپیکر کے عہدے کو کیسے پاک و صاف اور غیر منصفانہ رکھا جائے؟آپ نے جو تجاویز پیش کی ہیں اب مرکزی سرکار کو آگے فیصلہ کرنا ہے جمہوری نظام کو برقرار رکھنے کے لئے اسپیکر کا رول اہم ترین بن جاتا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟