کیا آستھاکی نگری میں ذات برادری تجزیہ حاوی ہوگا؟

گنگا جمنا سرسوتی کے سنگم کو اپنے آغوش میں سمائے الہٰ آباد دھارمک طور سے اہم ترین ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور سے بھی اہم ہے ۔کنبھ میلے کا اتعقاد اسے آستھا کا مرکز بناتا ہے تو دیش کو دو وزیر اعظم دے کر سیاست میں اپنی اہمیت ثابت کی ہے الہٰ آباد میں بارہ مئی کو چناﺅ ہونا ہے بھاجپا نے یہاں سے ریتا بہو گنا جوشی کو میدان میں اتارا ہے ان کے مقابلے پر سپا کے راجیندر سنگھ پٹیل اور کانگریس کے یوگیش شکل ہیں ۔لکھنو چھاونی سے ممبر اسمبلی ریتا بہو گنا جوشی یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار میں مہیلا خاندانی بہبود اور زچگی اور ٹورزم وزیر ہیں ۔اتحاد کے تحت سپا نے پہلی بار راجیندر سنگھ پٹیل کو یہاں سے امیدوار بنایا ہے وہیں سال 2009میںبھاجپاکے ٹکٹ پر لوک سبھا چناﺅ لڑ چکے یوگیش شکلا اس مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر چناﺅ لڑ رہے ہیں وہ 60983ووٹ پاکر تیسرے مقام پر رہے تھے ۔بھاجپا سے ٹکٹ کٹنے کے بعد باغی ہو گئے اور اب وہ کانگریس کے ٹکٹ پر چناﺅ لڑ رہے ہیں ۔بتا دیں کہ 2014کے لوک سبھا چناﺅ میں بھاجپا کے شیاما چرن گپتا 313772ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے اور سپا کے ریوتی رمن سنگھ دوسرے نمبر پر تھے جنہیں 251763ووٹ ملے جبکہ تیسرے نمبر کے بسپا کے کراری دیوی پٹیل ان کو 162073ووٹ ملے تھے ۔کانگریس امیدوار نند گوپال گپتا کو 102453ووٹ ملے تھے اس مرتبہ سپا بسپا مل کر چناﺅ لڑ رہے ہیں ۔اگر 2014کے ان دونوں ووٹوں کو جوڑ دیا جائے تو کل 324146ووٹ بنتے ہیں یہ بھاجپا کے 251763سے کہیں زیادہ ہیں اگر صحیح معنوں میں بسپا کا ووٹ سپا کو ٹرانسفر ہو جاتا ہے تو بھاجپا کانگریس دونوں کے لئے جیتنا مشکل ہو جائے گا بھاجپا امیدوار کو مودی کی مقبولیت یوگی آدتیہ ناتھ سرکار کے کارناموں کا فائدہ مل سکتا ہے ۔وہیں اکھلیش یادو کے وزیر اعلیٰ کے عہدمیں ہوئے ترقیاتی کام کا فائدہ امیدوار کو مل سکتا ہے کانگریس یہاں جیتنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی کھوئی زمین کو واپسی کے لئے لڑ رہی ہے یہاں سے گیتا بہوگنا جوشی کے جیت پانے میں شبہ ہے ۔راجیندر سنگھ پٹیل کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟