اب 12سیٹوں پر شہ-مات کا کھیل شروع

راجستھان کے پہلے مرحلے کی پولنگ ہونے کے بعد اب لڑائی کا مرکز راجدھانی جے پور بن گیا ہے ۔ریاست کی باقی بچی جن سیٹوں کے لئے چھ مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے اس میں راجدھانی جے پور اور اس سے وابسطہ سیٹیں شامل ہیں ۔آخر مرحلے والی 12سیٹوں میں سب سے دلچسپ مقابلہ جے پور دیہات سیٹ پر ہو رہا ہے ۔یہاں لڑائی دیش کا نام روشن کرنے والی دو نامور شخصیتوں کے درمیان ہے ۔بھاجپا کی طرف سے نشانہ باز سلور میڈل ونر راجوردھن سنگھ راٹھور ہیں ۔تو دوسری طرف کانگریس کے ٹکٹ پر گولڈ میڈل ونر کرشنا پنیا لڑ رہی ہیں ۔راٹھور 2014میں سیاست میں آئے تھے ۔اور اسی سیٹ سے ایم پی بن کر مرکز ی وزیر بنے ہیں ۔ادھر کرشنا پنیا 2018کے اسمبلی چناﺅ میں کانگریس کے ٹکٹ پر چورو ضلع کی سبل پور سیٹ سے ممبر اسمبلی ہیں ۔پارٹی نے انہیں جے پور دیہات سے میدان میںراجوردھن سنگھ روٹھور کے خلاف اتارا ہے ۔جے پور دیہات کی چناﺅ ی لڑائی کو ذات پات کے تجزیوں کی وجہ سے کانٹے کی ٹکر مانا جا رہا ہے ۔اس سیٹ پر قریب پانچ لاکھ جاٹ ووٹ ہیں ۔اور کرشنا پنیا بھی جاٹ ہیں۔اس کے علاوہ ایک لاکھ مسلمان ووٹ ہیں ۔جو کانگریس کے حامی مانے جاتے ہیں ۔جے پور دیہات میں آٹھ اسمبلی حلقوں میں سے پانچ پر کانگریس کا قبضہ ہے ۔باقی سیٹیں بھاجپا کے حصے میں ہیں ۔اور ایک سیٹ آزاد کے پاس ہے ۔جنہوںنے کانگریس کو حمایت دے رکھی ہے ۔باقی سیٹیں بی جے پی کے حصے میں ہیں ۔وہی راٹھور کی سب سے بڑی طاقت ہیں وہ راجپوت برادری سے آتے ہیں ۔اگر پنیا کے حق میں جاٹ ووٹروں کا پولرائزیشن ہو سکتا ہے تو راٹھور کے حق میں پوری راجپورت برادری کھڑی ہو سکتی ہے ۔ویسے بی جے پی کی کوشش جس طرح سے دیگر سیٹوں پر نظر آئی وہاں دیگر سیٹوں پر ذات پات کی صف بندی کو کاٹ کرنے کے لئے راشٹرواد کے اشوکو بھناتی دکھائی پڑ رہی ہے ۔اُدھر جے پور شہر سیٹ پر بی جے پی مضبوط ہے ۔کانگریس نے اس سیٹ پر سابق میر لوتی کھیڑ وال کو ٹکٹ دیا ہے ۔ان کا مقابلہ موجودہ ایم پی رام چرن گورا سے ہے جو پچھلے چناﺅ میں راجستھان میں سب سے زیادہ ووٹوں سے جیتے تھے ۔یہ سیٹ بی جے پی کے دبدبے والی مانی جاتی ہے ۔اب راجستھان کی بارہ سیٹیں جیتنے کے لئے شہ مات کا کھیل شروع ہو چکا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟