دو سیاسی گھرانوں میں بادشاہت کی جنگ

قومی راجدھانی دہلی سے محض 32کلو میٹر کی دوری پر بسا آئی سیکٹر کا گڑھ گورو گرام فی شکس آمدنی میں چنڈی گڑھ اور ممبئی کے بعد تیسرے نمبر پر آتا ہے ہریانہ کو اپنے اس شہر پر بہت فخر ہے گورو گرام ایسا آئی ٹی ہب بن چکا ہے جس کا راستہ دیش دنیا کے کئی بڑے شہروں تک پہنچتا ہے ۔یہاں گورو درونا چاریہ پانڈوں کوتعلیم تھی جس کے بعد یودھشٹر نے اپنے گرو درونا چاریہ کو گو رو گرام تحفے میں دیا تھا ۔نام بھلے ہی بدل گیا ہو لیکن چناﺅ کمیشن کے ریکارڈ میں گورو گرام کے بجائے اب بھی گرگاﺅں درج ہے ۔بھاجپا نے ایک بار پھر مرکزی وزیر مملکت اندرجیت سنگھ کو میدان میں اتارا ہے وہیں کانگریس نے چار بار ایم پی رہے راﺅ اندر جیت کو چنوتی دینے کے لئے سابق وزیر کیپٹن اجے سنگھ یاد وکو اپنا امیدوار بنایا ہے انڈین نیشنل لوک دل نے صنعت کار ویرندر رانا کو ٹکٹ دیا ہے ۔تو وہیں جن نائک پارٹی نے عآپ سے اتحاد کے بعد سوشل انٹر پرنیور ڈاکڑمحمود خان پر داﺅں کھیلا ہے ۔راﺅ اندر جیت 2014میں کانگریس چھوڑ کر بھاجپا میں آئے تھے وہ پچھلے سال سے مودی سرکار میں وزیر ہیں بھاجپا کو راﺅ کی صاف ستھری ساکھ سے جیت کی پوری امید ہے وہ کیپٹن اجے سنگھ یادو اور آر جے ڈی نیتا لالو پرساد یادو کے سمدھی ہیں اور ریواڑی سے چھ بار ممبر اسمبلی اور ریاستی بجلی منتر ی رہ چکے ہیں 2009میں حد بندی کے بعد ابھی تک صرف دو چناﺅ ہوئے ہیں 2014کے چناﺅ میں راﺅ نے مودی لہر پر سوار ہو کر میو امیدوار ذاکر حسین کو دو لاکھ 74ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہرایا تھا ۔دونوں لوک سبھا چناﺅ سے پتا لگتا ہے کہ اس سیٹ پر ذات پات تجزیہ اور شہری ووٹروں کا دبدبہ ہے میوات علاقہ کی تین سیٹوں پر میو امیدوار کا دبدبہ رہا ہے تو وہیں ریواڑی ضلعہ کی دو اسمبلی سیٹوں ،ریواڑی اور گورو گرام ضلعہ کی تین اسمبلی سیٹوں (گورو گرام،بادشاہپور،و پٹودی)میں اہیر ووٹوں کی تعداد زیادہ ہے 2009میں کانگریس و بھاجپا کے ٹکٹ سے چناﺅ لڑنے والے اندر جیت سنگھ کو اہیروں کے ساتھ شہری ووٹوں کی بھی ہمایت ملی ۔اس سیٹ پر مودی فیکٹر کام کر رہا ہے جنہیں اندر جیت سنگھ سے نارضگی بھی ہے لیکن پھر بھی ووٹ مودی کو دیں گے بھاجپا کو امید ہے کہ راﺅ اندر جیت سنگھ پھر بڑی جیت حاصل کریں گے ۔تو وہیں کانگریس کے حق میں میو ووٹوں کو اپنے حق میں لانے کی آس لگائے بیٹھی ہے یہاں فوجیوں و سابق فوجی ووٹوں کی کافی تعداد ہے بالا کوٹ ائیر اسٹرائک کے چلتے سابق فوجیوں کا جھکاﺅ بھاجپا کی طرف ہے ۔تو وہیں کانگریس بے روزگاری جی ایس ٹی ،نوٹ بندی ،کسانوں کے مسئلے جیسے اشو اٹھا رہی ہے 2014کے مقابلے یہ چناﺅ کافی الگ ہے ۔یہ بات راﺅ اندر جیت سنگھ بھی سمجھ رہے ہیں ۔دیکھیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟