اس تکونی لڑائی میں کون بازی مارئے گایہ کہنا مشکل ہے ؟

جھلسنے والی گرمی کے درمیان مشرقی دہلی پارلیمانی حلقہ کا سیاسی پارہ انتہا پر پہنچ گیا ہے ۔تنیوں بڑی سیاسی پارٹیوں بھاجپا کانگریس عام آدمی پارٹی نے سیاسی بساط بچھا دی ہے تنیوں کے امیدوار اب آمنے سامنے ہیں اس تکونی لڑائی میں اگر اروندر سنگھ لولی جیتے تب یہ چالیس سال بعد دہلی سے کسی سکھ کو لوک سبھا میں پہنچانے کی تاریخ رقم کر دے گی ان کا مقابلہ بھاجپا کے گوتم گمبھیر اور عام آدمی پارٹی کی نیتا آتیشی سے ہے تنیوں میں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں ،شکوا شکایتوں کی بوچھار میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں ہیں دوسری طرف آج انسانیت ترقی اور راشٹرواد کے درمیان اپنے نمائندے کی تلاش کر رہا ہے ۔دلچسپ یہ ہےکہ مشرقی دہلی کے تکونے مقابلے کی سیدھی لڑائی دکھانے کی حکمت عملی پر تنیوں پارٹیاں کام کر رہی ہیں عام آدمی پارٹی کا دعوہ ہے کہ ان کا سیدھا مقابلہ بھاجپا سے ہے تو کانگریس بھی سیدھی لڑائی بھاجپا سے بتا رہی ہے ۔وہیں بھاجپا بھی عام آدمی پارٹی کو تیسرے نمبر کا کھلاڑی بتاتی ہے اور اس کی جگہ بھاجپا اپنا سیدھا سیاسی حریف کانگریس کو مان رہی ہے ۔آتیشی عآپ امیدوار پچھلے چھ مہینے سے اپنی چناﺅ مہم میں لگی ہیں جبکہ بھاجپا نے کرکٹر گوتم گمبھیر ،اور کانگریس نے اروندر سنگھ لولی کو دیر سے امیدوار بنایا تنیوں پارٹیاں ووٹروں کو اپنی طرف جوڑ توڑ سے راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں نکڑ سبھایں ،اور روڑ شو اور صبح شام یاتراﺅں کے سہارے تینوں پارٹیوں کی چناﺅ مہم جاری ہے اروندر سنگھ لولی کو سکھ ہونے اور کانگریس کے پردیش صدر رہنے کا فائدہ ملے گا وہیں بھاجپا اپنی اس جیتی ہوئی سیٹ کو کسی قیمت پر ہارنا نہیں چاہے گی آتیشی دونوں کو ہی سخت ٹکر دے رہی ہیں ۔اگر کانگریس اور آپ کے ووٹوں کا بٹوارہ ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا گوتم گمبھیر سے زیادہ بھاجپا مودی کے نام پر چناﺅ لڑ رہی ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟