نئی دہلی سیٹ کا نتیجہ کاروباری اور سرکاری ملازم طے کریں گے

دیش کی سب سے وی وی آئی پی سیٹ نئی دہلی میں اس مرتبہ چناﺅی مقابلہ بھی وی وی آئی پی ہونے والا ہے ۔اس سیٹ پر سال2014کے لوک سبھا چناﺅ میں کانگریس کے امیدوار اجے ماکن کو ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔اور بھاجپا کی نیتا میناکشی لیکھی نے انہیں ہرایا تھا ۔ایک بار پھر دونوں آمنے سامنے ہیں ۔بھاجپا نے میناکشی لیکھی کو کانگریس نے اجے ماکن کو اور عام آدمی پارٹی نے برجیش گوئل کو بسپا نے سشیل وگیرا، کو میدان میں اتارا ہے ۔پہلی بار ہے میدان میں چار بڑے امیدوار اترے ہیں ۔نئی دہلی سیٹ پر سب سے زیادہ مرتبہ بھاجپا ایم پی چنے گئے ہیں ۔پارٹی نے ایک بار پھر میناکشی لیکھی کو چناﺅ میدان میں اتار کر سیاسی داﺅں چلا ہے سال 1952میں پہلی مرتبہ اس سیٹ پر سچیتا کرپلانی ایم پی بنی تھیں وہیں سابق و سورگیہ پی ایم اٹل بہاری واجپائی اس سیٹ سے 1977اور1980میں ایم پی رہ چکے ہیں ۔وہیں 1989اور 1991کے چناﺅ میں لال کرشن اڈوانی ایم پی بنے تھے جبکہ 1992میں ہوئے چناﺅ میں فلم اداکار سورگیہ راجیش کھنہ کامیاب ہوئے تھے ۔نئی دہلی کے زیادہ تر علاقوں میں پانی کا بڑا مسئلہ ہے خاص کر جھگی علاقوں میں پانی کی قلت ہر سال دیکھنے کو ملتی ہے یہاں کے لوگوں کی اہم پریشانی پانی سیور ،اسکول وغیرہ ہیں ۔نئی دہلی سیٹ بھلے ہی جتنی ہاٹ سیٹوں میں نہیں کی جا رہی ہو لیکن اس سیٹ کے نتیجے دور رس پیغام دیں گے اس سیٹ پر ویسے تو پنجابی ووٹروں کی اکثریت ہے لیکن کون جیتے گا یہ کافی حد تک اس حلقہ کے کاروباری اور سرکاری ملازم کے ووٹ طے کریں گے ۔یہی وجہ سے کہ تینوں پارٹیوں کے امیدوار ان سے کافی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔بطور ایم پی میناکشی لیکھی نے بے شک کئی کام کئے ہیں لیکن ان سے شکایتیں بھی ہیں کہ وہ لوگوں کا کام نہیں کرتی ہیں ۔پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران نئی دہلی کے تاجروں کو سیلنگ کا معاملہ جس طرح جھیلنا پڑا اس سے پیدا ناراضگی کو دور کرنا اور کاروباریوں کا اعتماد پھر سے حاصل کرنا لیکھی کے لئے بڑا چیلنج ہوگا ۔اجے ماکن یہاں سے اپنی قسمت پہلے بھی آزما چکے ہیں اور اسی وجہ سے دو بار ایم پی رہ چکے ہیں سیلنگ کے اشو کو زور شور سے اُٹھا کر کاروباری طبقہ کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں وہ یہ تو ووٹوں کی گنتی کے بعد پتہ چلے گا ۔کل ملا کر یہاں مقابلہ کانٹے کا ہے ۔
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟