بڑا چناﺅی دنگل: سلطانپور

سلطانپور لوک سبھا حلقہ میں اس مرتبہ مقابلہ بے حد دلچسپ ہے ۔پیلی بھیت ،سے سات مرتبہ ایم رہیں مینکا گاندھی کے مقابلے میں کانگریس امیدوار ڈاکٹر سنجے سنگھ ہیں وہ 2009سے یہاں ایم پی رہے ہیں وہیں گٹھ بندھن سے بسپا امیدوار چندربھان سنگھ ہیں جو یہاں سے کئی بار ممبر اسمبلی رہ چکے ہیں ۔ان میں بھاجپا امیدوار مینکا گاندھی اپنے بیٹے ورون گاندھی کے ذریعہ کرائے گئے ترقیاتی کاموں کو سامنے رکھ کر لوگوں کے درمیان ہیں جبکہ ڈاکٹر سنجے سنگھ اور چندربھان سنگھ مقامی ہونے پر خود اعتمادی سے لبریز ہیں ۔سلطانپور میں کل 18لاکھ 11ہزار 770ووٹر ہیں ان میں 9لاکھ 47ہزار 618مرد اور 8لاکھ 64ہزار 59عورتیں ہیں ۔16ویں لوک سبھا کے چناﺅ میں سلطانپور کے ووٹروں نے ورون گاندھی کو 4لاکھ دس ہزار ووٹ دئے تھے ۔جبکہ کانگریس کے موجودہ امیدوار ڈاکٹر سنجے سنگھ کی بیوی امیتا سنگھ صرف 42ہزار ووٹوں سے تشفی کرنی پڑی تھی ۔ایسے میں کانگریس کے کبھی گڑھ رہے سلطانپور میں کانگریس کی موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرنا مشکل نہیں ہے ۔رہی بات 16ویں لوک سبھا کے چناﺅ کی تو اس سیٹ سے سپا بسپا کے امیدواروں کو ملے ووٹوں کے مقابلے بھی کم دلچسپی نہیں ہے ۔بسپا کے شکیل احمد کو 16ویں لوک سبھا چناﺅ میں 2لاکھ 28ہزار بسپا امیدوار پون پانڈے کو 2لاکھ 31ہزار ووٹ ملے تھے اپنے دونوں امیدواروں کو 16ویں لوک سبھا کے چناﺅ میں ملے ووٹوں کو ایک ساتھ کر سپا بسپا اپنی مضبوطی کا دعوہ ٹھوک رہی ہیں ۔ایسے میں دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا یہ دونوں پارٹیاں ووٹروں کو ایک ساتھ لا پانے میں کامیاب ہو پاتی ہیں یا نہیں ؟کبھی مہاراجاﺅں کی سلطنت رہے سلطانپور کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے گٹھ کے طور پر قائم کیا ہے ۔لوک سبھا سیٹ سے اب تک آٹھ مرتبہ کانگریس چار مرتبہ بھاجپا اور ایک بار بار جنتا پارٹی اور جنتا دل کے امیدوار کامیاب ہو چکے ہیں ۔کل ملا کر سلطانپور سے سولہویں لوک سبھا کے چناﺅ میں مقابلہ بے حد دلچسپ ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!