راہل جن سماجی۔ سیاسی اشوز کو اٹھا رہے ہیں انہیں خارج نہیں کیا جاسکتا

کانگریس صدر راہل گاندھی بیشک وزیر اعظم بنیں یا نہ بنیں مگر مشترکہ اپوزیشن کے 2019 میں نیتا بنیں یا نہ بنیں پر جو سوال وہ اٹھا رہے ہیں انہیں مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اور ان کے جواب نہیں مل رہے۔ ادھر ادھر کے الزام لگائے جارہے ہیں لیکن اصل اشوز پر کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل پا رہا ہے۔ حال ہی میں راہل نے اپنے جرمنی اور لندن میں مودی سرکار پر تلخ حملے کئے۔ انہوں نے آر ایس ایس ، 1984 کے سکھ فسادات اور مودی سرکار پر تلخ حملے کئے اور بیباکی سے اپنے نظریات رکھے۔ راہل الزام لگایا کہ بھاجپا سرکار میں عدلیہ اور چناؤ کمیشن کو بانٹا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی دیش کے سامنے اٹھ رہے سنگین اشوز پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور کسی بھی اشو کا جواب نہیں دے رہے ہیں۔ لندن میں واقع انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں منعقدہ ایک پروگرام میں آر ایس ایس کا موازنہ مسلم برادر ہڈ سے کیا جس پر بھاجپا اور آر ایس ایس کی طرف سے تلخ رد عمل سامنے آیا۔ مسلم برادر ہڈ کا قیام 1928 میں مصر میں ہوا تھا۔ پچھلے کچھ برسوں سے کانگریس سنگھ کے خلاف بھگوا دہشت گردی جیسے سخت اور جارحانہ الفاظ کا استعمال کرتی آرہی ہے۔ اسی سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے راہل نے سنگھ کے ساتھ مسلم برادر ہڈ کا موازنہ کیا ہے اور دونوں تنظیموں میں حالانکہ کچھ یکسانیت بھی ہے۔ مثلاً آر ایس ایس کی طرح مسلم برادر ہڈ بھی اپنے کو سماجی اور ثقافتی انجمن ہونے کا دعوی کرتی ہے۔ سنگھ کا قیام ہندو سماج کے مفادات کی حفاظت کے لئے ہوا ہے تو مسلم برادر ہڈ کے نام سے ہی صاف ہے اس کا مقصد اخلاقی اقدار کو فروغ کرنا ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی کے لندن میں کئی پروگرام تھے۔ انڈین اوور سیز کانگریس کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مودی سرکار پر کئی الزام لگائے۔ راہل نے کہا کہ سپریم کورٹ ،چناؤ کمیشن ، بھارتیہ ریزرو بینک جیسے ادارہ جو ہمارے دیش کے ستون ہیں انہیں بانٹا جارہا ہے۔ پہلی بار عدالت عظمیٰ کے چار سینئر ججوں کو پبلک طور پر یہ بات کہنی پڑی کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم یہ کہہ کر ہر ایک ہندوستانی کی بے عزتی کرتے ہیں کہ پچھلے 70 سالوں میں بھارت میں کچھ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے بھارت عالمی برادری کو مستقبل دکھاتا ہے۔ بھارت کے لوگوں نے اسے ممکن کیا ہے۔ اس میں کانگریس نے بھی مدد کی ہے۔ راہل نے کہا اگر وزیر اعظم کا یہ کہنا ہے کہ ان کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے کچھ نہیں ہوا تو وہ کانگریس پر رائے زنی نہیں کررہے بلکہ وہ دیش کے ہر شخص کی بے عزتی کررہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا حال ہی میں بھارت میں دلتوں، کسانوں ،قبائلی لوگوں، اقلیتوں اور غریبوں کو کہا جاتا ہے کچھ نہیں ملے گاآواز اٹھانے پر ان کی پٹائی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا درج فہرست ذاتیں اور درج قبائل (ظلم انسداد) ایکٹ کو تباہ کیا جاتا رہا ہے۔ وظیفے بند کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا آج بھارت میں لوگوں کے ساتھ ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز برتا جارہا ہے۔ حاشیے پر پڑے لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا جارہا ہے جبکہ انل امبانی جیسے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جب وزیر اعظم کی پارٹی کے ممبر اسمبلی نے مہلا کے ساتھ آبروریزی کی تو وہ خاموشی اختیار کئے رہے۔ جب نیرو مودی جنتا کا پیسہ لیکر بھاگ گیا تب بھی وہ خاموش رہے۔ کانگریس صدر نے کہا چین روزانہ 50 ہزار نوکریاں پیدا کرتا ہے جبکہ بھارت میں محض 450 لوگوں کو ہی نوکری ملتی ہے۔ ہمارے کسانوں کو مدد چاہئے۔ ہمارے نوجوانوں کو تعلیم ، بزرگوں کو صحت خدمات لیکن ان اشوز پر کوئی بحث نہیں ہوتی۔ راہل نے کہا کہ میں وزیر اعظم کے لئے غلط زبان کا استعمال نہیں کرتا اگر آپ نے رافیل سودے پر پارلیمنٹ میں بحث سنی ہوگی تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وزیر اعظم میرے ایک بھی سوال کا جواب نہیں دے پائے۔ بیرون ملک میں مقیم ہندوستانیوں کے دیش کی ترقی میں دئے گئے اشتراک کی سراہنا کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا مہاتما گاندھی، بی آر امبیڈکر اور جواہر لعل نہرو سبھی این آر تھے۔ انہوں نے دنیا کا دورہ کیا اور نئے نظریات کے ساتھ بھارت کی مدد کی۔ جرمنی کے ہمبرگ میں واقع بکارس سمر اسکول میں دی گئی راہل کی تقریر کافی سرخیوں میں رہی۔ راہل نے دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا ترقی عمل سے بڑی تعداد میں لوگوں کو باہر رکھنے سے دنیا میں کہیں بھی دہشت گرد تنظیم پیدا ہوسکتی ہے۔ کانگریس صدر نے کہا کہ مرکز کی بھاجپا سرکار نے ترقی کے عمل سے آدی واسیوں ، دلتوں اور اقلیتوں کو باہر رکھا ہے اور یہ ایک خطرناک بات بن سکتی ہے۔ اگر آپ 21 ویں صدی میں لوگوں کو کوئی ویژن نہیں دیتے تو کوئی اور دے گا۔ترقی کے عمل سے بڑی تعداد میں لوگوں کو باہر رکھنے کا یہ اصلی خطرہ ہے۔ کانگریس صدر نے دعوی کیا کہ بھارت میں بھیڑ کے ذریعے لوگوں کو پیٹھ پیٹھ کر مارڈالے جانے کے واقعات، بے روزگاری حکمراں بھاجپا کے ذریعے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو خراب طریقے سے لاگو کئے جانے سے چھوٹے کاروباروں کے چوپٹ ہوجانے کی وجہ سے غصے کے اسباب پیدا ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا چھوٹے کاروبار میں کام کرنے والے بڑی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں اور مجبور ہوکر اپنے اپنے گاؤں لوٹ رہے ہیں۔ راہل نے پاکستان کے اشو پر کہا پاکستان کو لیکر پی ایم مودی کے پاس کوئی سنجیدہ سوچی سمجھی حکمت عملی نہیں ہے۔ چین کے ساتھ مودی سرکار کی خارجہ پالیسی پر بولتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ پی ایم مودی ڈوکلام کو محض ایک ایونٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اقتدار کی لامرکزیت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بھارت تبھی کامیاب ہوا جب اقتدار کا سینٹرلائزیشن ہوا۔ پچھلے چار برسوں میں بڑے پیمانے پر اقتدار کا سینٹرلائزیشن ہوا۔ آج اقتدار کی پوری طاقت پی ایم او کے پاس ہوگئی ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے راہل گاندھی کی حمایت میں اترتے ہوئے کہا کہ اگر آر ایس ایس اور بھاجپا قیادت والی این ڈی اے حکومت اور یہاں تک کہ وزیراعظم نریندر مودی کی تنقید بھارت پر حملہ کے برابر نہیں ہے۔ بھاجپا کے ترجمان سنبت پاترا نے راہل پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ان کو فوراً معافی مانگی چاہئے۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا بول رہے ہیں۔ وہ سپاری لے کر ہندوستان کو ختم کرنے کی کوشش بند کریں۔ وہیں سدھانشو ترویدی نے کہا کہ راہل گاندھی نا سمجھ ہیں اور نا دان نیتا ہیں وہ دیش کو اسی مقام پر پہنچانا چاہتے ہیں جس پر اپنی پارٹی کو پہنچایا ہے۔ ایک ووٹ کی خاطر کانگریس نے دیش کو مذہب ، ذات پات کے نام پر بانٹا ہے ۔ بھاجپا کو اپنی بات کرنے اور نکتہ چینی کا پورا حق ہے لیکن سوال پھر وہی آتا ہے جو سوال جن کا میں نے تفصیل سے تذکرہ کیا ہے اہم سوال ہیں جن کا صحیح جواب نہ تو وزیر اعظم دے رہے ہیں اور نہ ہی بھاجپا دے رہی ہے۔ دیش ان سوالوں کا جواب چاہتا ہے نہ کہ الزام تراشی۔ راہل آہستہ آہستہ ایک سنجیدہ مقرر لیڈر بنتے جارہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!