جہیز قتل، رشتے داروں کوراحت

سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کہا کہ ازدواجی جھگڑوں اور جہیز قتل کے معاملوں میں شوہر کے رشتے داروں کو تب تک نامزد نہیں کیا جانا چاہئے جب تک ان کااس جرم میں رول واضح نہ ہوجائے۔ جسٹس ایس اے ویبڑے اور جسٹس ایل ناگیشور راؤ کی ڈویژن بنچ نے یہ فیصلہ ایک شخص کے ماموں کے ذریعے دائر عرضی کو قبول کرتے ہوئے دیا۔ عرضی میں ان لوگو نے حیدر آباد ہائی کورٹ کے جنوری 2016 کے اس فیصلے کو چنوتی دی ہے کہ ہائی کورٹ نے ایک ازدواجی معاملے میں اس کے خلاف مجرمانہ کارروائی ختم کرنے کی اپیل کو خارج کردیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چنوتی دی۔ بنچ نے کہا چارج شیٹ پر غور کرنے کے بعد کورٹ کی رائے ہے کہ شادی شدہ عورت سے بے رحمانہ جرم اور سازش ،دھوکہ دھڑی اور اغوا کے الزامات کے لئے شوہر کے ماماؤں کے خلاف پہلی نظر میں معاملہ نہیں بنتا۔ اس معاملہ میں شکایت کنندہ نے پولیس میں دی گئی شکایت میں شوہر اور اس کے ماماؤں سمیت رشتے داروں پر اذیت پہنچانے کا الزام لگایا تھا۔ ساتھ ہی متاثرہ نے دعوی کیا تھا کہ شوہر نے اس کے بیٹے کا اغوا بھی کیا تھا جس میں اس کے ماماؤں نے بھی مدد کی تھی۔ بنچ نے کہا کہ عرضی گزاروں کے ذریعے بیوی کو اذیت دینے والے شوہر کی حمایت کرنے اور اپنے بچے کو امریکہ لے جانے میں بھانجے کی مدد کے علاوہ ان کے خلاف جرم میں ملوث ہونے کا کوئی دیگر ثبوت نہیں ہے۔ جب تک عدالتی کارروائی بیجا استعمال نہیں ہوتا تب تک مجرمانہ کارروائی کے طور پر ہم معاملے میں مداخلت نہیں کرتے ۔ لیکن انصاف کو محفوظ کرنے کے لئے یہ عدالت معاملہ میں دخل دینے سے بھی کوئی قباحت نہیں کرتی۔ سپریم کورٹ نے یہ بالکل صحیح کہا کہ شادی سے متعلق جھگڑوں اور جہیز قتل کے معاملوں میں جرم میں ملوث ہونے کی تصدیق کے بغیر شوہر کے ساتھیوں کو نامزد نہیں کیا جانا چاہئے۔ اسی کے ساتھ سپریم کورٹ نے عدالتوں کو بھی یہ ہدایت دی کہ وہ ایسے معاملوں میں شوہر کے دور کے رشتے داروں کے خلاف کارروائی میں احتیاط برتیں لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ صرف اتنے سے بات نہیں بنے گی اور بنیادی حقیقت بدل جائے گی۔ صاف ہے کہ اگر پولیس اپنا کام صحیح طرح نہیں کرے گی تو پھر ازدواجی جھگڑے اور جہیز قتل کے معاملوں میں بے قصور لوگ جھوٹے الزام کی زد میں آکر پریشانی اٹھاتے رہیں گے۔ پالیسی اور انصاف کا تقاضہ یہی کہتا ہے کہ کسی بھی معاملہ میں کسی کو صرف الزامات کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا جانا چاہئے۔ لیکن بدقسمتی سے جہیز اذیت کے ساتھ دیگر کئی معاملوں میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ بیوی کو اذیت اور جہیز قتل کے معاملوں میں عام طور پر شوہر کے ساتھ اس کے ماں باپ اور پریوار کے دیگر افراد او ر کئی بار تو دور کے رشتے داروں کو بھی ملزم بنا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ جھوٹے الزامات کی بنیاد پر پھنسائے گئے ایسے لوگوں کو عدالت سے راحت مل جاتی ہے لیکن جب تک ایسا ہوتا ہے تب تک وہ بدنامی کے ساتھ ساتھ دیگر پریشانیوں سے دوچار ہوچکے ہوتے ہیں۔ آج تہاڑ جیل میں کئی پورے کے پورے کنبے بند ہیں۔ سپریم کورٹ کے تازہ فیصلہ سے متاثرہ بے قصور افراد کو ضرور بچایا جاسکتا ہے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟