سپا ۔کانگریس پارٹیاں تو ملیں لیکن کیا دل بھی ملے ہیں

دعوی بھلے ہی بہار کی طرز جیسا کیا جارہا ہو لیکن اترپردیش میں سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے درمیان ویسا اتحاد نہیں ہوا۔ بہار میں پارٹیوں کے ساتھ ان کے دل بھی ملے تھے اس لئے نتیجے بھی اچھے آئے لیکن کیا یہی حقیقی صورتحال یوپی میں بھی ہے؟ سپا۔ کانگریس کے درمیان ہوئے اس سمجھوتے سے کانگریس کے کئی بڑے نیتا اور ورکر اپنے آپ کو ٹھگا ہوا سا محسوس کررہے ہیں۔ کیونکہ فیصلہ ہائی کمان کا ہے اس لئے دکھی دل سے قبول کرنا مجبوری ہے۔ پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ راہل اور پرینکا کی اتنی بے عزتی کے بعد ہوئے ایک سمجھوتے کو کانگریس کے حمایتی اور ورکر زمین پر کیسے اتاریں گے؟ پردیش کانگریس کے نیتا سپا کے ساتھ ایسے کسی سمجھوتے کے لئے تیار نہیں تھے جو جھک کر کیا گیا ہو۔ امیٹھی اور رائے بریلی کی سیٹوں پر ٹکراؤ بنا ہوا ہے۔ کانگریس ان دونوں ضلعوں کی سبھی سیٹوں پر دعوی ٹھونک رہی ہے۔ سنا ہے کہ سپا یہ سیٹیں کانگریس کو دینا مان گئی ہے جبکہ سپا 2012ء میں یہ جیتی ہوئی سیٹیں چھوڑنے کوتیار نہیں تھی البتہ وہ اتحاد کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے کچھ سیٹیں چھوڑنے کے لئے تیار ہوئی ہے۔ اس ٹکراؤ کا اثر سانجھہ چناؤ کمپین پر بھی پڑ سکتا ہے۔ فی الحال چناؤ کے لئے سیاسی کیمسٹری تیار کرنے میں دونوں کو خاصی مشقت کرنی پڑے گی۔مہا گٹھ بندھن روکنے کے لئے کہتے ہیں کہ بھاجپا کے حکمت عملی سازوں نے پہلے ہی اجیت سنگھ کے آر ایل ڈی کو باہر نکلوایا۔ اس سے کانگریس کا دباؤ کمزور ہوا۔ پریوار اور پارٹی میں یادوی گھمسان میں کامیاب ہونے کے بعد اکھلیش کا سیاسی گراف یکا یک خاصہ اوپر چلا گیا۔ اس گھمسان میں کانگریس نے درپردہ طور سے اکھلیش کی حمایت کی۔ کانگریس۔ سپا کی یہ دوستی دونوں بھاجپا اوربسپا کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کانگریس کی نظر 2019ء کے لوک سبھا چناؤ پر لگی ہے۔ پارٹی کو لگ رہا ہے کہ سپا کے کندھے پر سوار ہوکر اگر اس بار یوپی میں اپنی طاقت میں اضافہ کر لیتی ہے تو2019ء میں اسے اتنی مشقت نہیں کرنی پڑے گی جتنی 2014ء میں اپنے وجود کو بچانے کے لئے کرنی پڑی تھی۔ وہیں سپا کو امید ہے کہ کانگریس کے ساتھ آنے سے جو مسلم ووٹ بسپا کی طرف جھک رہا تھا اب وہ اس گٹھ بندھن کے ساتھ آجائے گا۔ اس کے ساتھ سپا کو یہ امید بھی ہے کہ سپا کا یادو ووٹ بھی جہاں کانگریس امیدوار کھڑا ہے اسے مل جائے گا اس سے کانگریس کا ووٹ شیئر اور سیٹیں دونوں بڑھ جائیں گی لیکن کیا یہ اتحاد زمینی سطح پر بہتر ثابت ہوگا؟ کیادونوں پارٹیوں کے ورکروں کا من بھی ملے گا؟ یہ بڑا سوال ہے۔ ابھی بھی کچھ سیٹیں بچی ہیں جن پر فیصلہ ہوناباقی ہے۔ اکھلیش نے گٹھ بندھن کو پروجیکٹ کرنے کے لئے جو نیا پوسٹر بنایا ہے اس میں ملائم ،ڈمپل کے علاوہ راہل اور پرینکا بھی ہیں۔ دیکھیں یہ گٹھ بندھن بنیادی طور پر کتنا کھرا اترتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟