مسجد میں نمازیوں پر اندھا دھند فائرننگ
دہشت گردی سے آج دنیا کا کوئی ملک محفوظ نہیں ہے۔ دنیا کا کافی حدتک پرامن مانے جانے والا ملک کینیڈا بھی اس کی مار سے نہیں بچ سکا۔ ایتوار کی شام کینیڈا کے کیوبک شہر کی ایک مسجد میں حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرننگ کر 6 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ حملے میں 8 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹس تردو نے اسے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردانہ حملہ بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے جانچ جاری ہے اور فائرننگ کے سلسلے میں کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ یہ واردات اس وقت ہوئی جب کیوبک سٹی اسلامک کلچرسینٹر کے اندر تقریباً40 لوگ نماز ادا کررہے تھے۔ حملہ آوروں کی تعدادشروع میں تو 3 بتائی گئی۔ مسجد کے امام محمد یانگوئی نے کہا کہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس طرح کا حملہ یہاں کیوں کیا گیا؟ اس سے پہلے 2016ء میں اسی مسجد کے باہر سیڑھیوں پر کسی نے ایک سوور کا سر رکھ دیا تھا۔ کیوبک سٹی میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ ان میں سے زیادہ تر نارتھ امریکہ سے آئے ہوئے ہیں۔ 2015ء کے قومی چناؤ میں خواتین کا برقع یہاں ایک بڑا اشو بنا تھا۔ یہاں کی اکثریتی آبادی پبلک پروگراموں میں نقاب پر پابندی کی حمایت کررہی تھی۔ حالیہ برسوں میں یہاں اسلام کے خلاف ماحول حاوی رہا۔ 2015ء میں پیرس آتنکی حملے کے ایک دن بعد اوتاریو کی ایک مسجد میں آگ لگا دی گئی تھی۔ 20 دسمبر 2016ء کو میونخ (جرمنی) کی مسجد میں فائرننگ میں تین لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ اس حملے سے پہلے وزیر اعلی ترودو نے کہا تھا کہ کینیڈا میں سبھی ملکوں سے آنے والوں کا خیر مقدم ہے۔ انہوں نے یہ بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے سات مسلم ملکوں کے شہریوں کے امریکہ میں روک کے فرمان پر رد عمل میں کہی تھی۔ کینیڈا کے لبرل پارٹی کے ایم پی گریگ فیریکس نے کہا کہ یہ آتنکی واردات مسلمانوں کی برسوں سے جاری دھارمک پڑھائی کا نتیجہ ہے۔ نفرت پھیلانے والی تقریروں کا نتیجہ سامنے آیا ہے۔ کیوبک صوبے کے وزیراعلی فلپ کوئیلارڈ نے مسلم برادری کو کہا کیوبک صوبہ مسلمانوں کے گھر جیسا ہے ہم سبھی آپ کے ساتھ ہیں۔ پچھلے کچھ سال میں ہوئے گنے چنے واقعات کو اگر چھوڑدیں تو کینیڈا کی گنتی دنیا کے پرامن دیشوں میں کی جاتی ہے بلکہ کئی بار تو مذاق میں یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ کینیڈا کی زندگی میں کوئی تھرل نہیں ہے۔ اس واردات کو بھلے ہی کسی نے انجام دیا ہے لیکن امید کی جاتی ہے امن پسند دیش کینیڈا دہشت گردی کی زد میں نہیں آئے گا۔ یہ ٹھیک ہے دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے اچھے پولیس انتظامیہ اور خفیہ ایجنسیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سچ یہ بھی ہے کہ یہ پورا سلسلہ لوگوں کے سوچنے سمجھنے کے طریقے اور ان کی ذہنیت کو بھی بدلتا ہے جس کا دیر سویر اثر سرکاروں پر بھی دکھائی دیتا ہے۔ امید یہی ہے کہ تلخی کا راستہ کینیڈا میں تھمے گا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں