منوج تیواری نے پہن لیا ہے کانٹوں کا تاج

پچھلے کئی سال سے جاری طویل سسپینس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی اعلی کمان کے ذریعے مشرقی دہلی سے ممبر پارلیمنٹ منوج تیواری کو دہلی بھاجپا کی باگ ڈور جس اعتماد کے ساتھ سونپی گئی ہے اس سے ان کے لئے چنوتیاں کم نہیں ہیں۔ بھاجپا لیڈر شپ کے ساتھ ساتھ دہلی بھاجپا کے نئے پردھان و بھوجپوری گلوکار منوج تیواری کے سامنے اس فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی بھاری چنوتی ہے۔یہ خطرہ زیادہ ہے کہ کہیں فروری 2015ء کے اسمبلی چناؤ کے ٹھیک پہلے وزیر اعلی کے امیدوار اعلان کی گئیں کرن بیدی کی طرح منوج تیواری کا بھی حال نہ ہوجائے۔10 سال سے تینوں میونسپل کارپوریشنوں میں اقتدار پر قابض بھاجپا کو محض چار مہینے بعد ہونے والے دہلی میونسپل کارپوریشنوں میں جتانے کی تیواری کے سامنے اپنے کیریئر کی سب سے بڑی چنوتی ہے وہ یہ ہے کہ دوبارہ کمل کھلانا اور پچھلے ریکارڈ کو دوہرانا ان کے لئے بڑا ٹارگیٹ ہوگا۔ فی الحال یہ اتنا آسان نظر نہیں آرہا ہے۔ غیر منقسم کارپوریشن میں 2002ء میں ہوئے میونسپل کارپوریشن چناؤ کانگریس نے جیتکر 134 میں سے108 سیٹیں لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار سے باہر کردیا تھا لیکن 2007ء کے ایم سی ڈی چناؤ میں ڈاکٹرہرش وردھن کے پردیش پردھان رہتے بھاجپا نے شاندار کامیابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے واپسی کی تھی اس کے بعد 2011ء میں ویجیندر گپتا کی قیادت میں بھی بھاجپا تینوں کارپوریشنوں میں اقتدار میں واپسی میں کامیاب رہی۔ اب موجودہ حالات میں ایم سی ڈی چناؤ بہت اہمیت کے حامل ہوں گے۔ نئے بھاجپا پردھان کو نہ صرف مخالف پارٹیوں کو جواب دینا ہے بلکہ تنظیم میں گروپ بندی کو دیکھ کر سبھی گروپوں کو ساتھ لیکر ورکروں کو سرگرم کرنا ہوگا۔ ایسا کرنے میں اگر وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تبھی ایم سی ڈی چناؤ میں بھاجپا واپسی کرسکتی ہے۔ بھاجپا نے پہلی بار کسی پوروانچل کے لیڈر کو یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ پارٹی ہائی کمان کے لئے منوج تیواری پر قطعی فیصلہ لینا آسان نہیں تھا کیونکہ مخالف رہے سیاست کا نیا کھلاڑی بتاتے ہوئے احتجاج کررہے تھے۔ مخالفین کی دلیل تھی کہ تیواری کو نہ تو تنظیم سنبھالنے کا تجربہ ہے اور نہ ہی دہلی میں کام کرنے کا۔ منوج تیواری کے سامنے اب دوہری چنوتی ہے۔ ایک طرف تو عام آدمی پارٹی ہے تو دوسری طرف کانگریس۔ عام آدمی پارٹی اسمبلی چناؤ میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی لیکن پچھلے کچھ عرصے سے پارٹی کے بھروسے پر بٹا لگا ہے۔ عام آدمی کی دہلی سرکار سے جنتا کا کریز ختم ہونے کا زیادہ فائدہ کانگریس کو ہوا ہے۔ کانگریس دہلی میں کافی سرگرم ہے اور اپنی کھوئی ہوئی زمین واپس پانے کے لئے پوری طاقت جھونک رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے لئے بھی یہ چناؤ وقار کاسوال ہے۔ وہ یہ جتانا چاہے گی کہ دہلی اسمبلی میں اس کی جیت محض ایک تکا نہیں تھی اور وہ اپنے پروگراموں کے بل پر چناؤ جیتنا چاہے گی۔ کل ملا کر منوج تیواری کے سر پر کانٹوں کا تاج ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!