کیا کسی نے این آر آئی کا بھی سوچا ہے

بیشک حکومت اور ریزرو بینک دن رات نئی کرنسی کی سپلائی کرنے کے لئے زور لگا رہے ہیں لیکن 28 دن ہونے کے بعد بھی اے ٹی ایم اور بینکوں کے باہر لائنیں بند نہیں ہورہی ہیں۔ کل ہمارے ایک ملازم نے 24 ہزار روپے اپنے کھاتے سے نکلوائے۔ اسے 22 ہزار تو 2 ہزار کے نوٹوں کی شکل میں ملے باقی 2 ہزاراسے 10 کے سکوں کی تھیلیوں میں ملے۔ بینک بھی پریشان ہے وہ اکثر اپنے باہر لکھ کر لگا رہے ہیں بینک میں پیسہ نہیں ہے، بیکار لائن میں کھڑے نہ ہوں۔ ایک اور پریشانی دیکھنے کو مل رہی ہے لوگوں کو جو پیسے مل رہے ہیں وہ انہیں خرچ کرنے سے پرہیز کررہے ہیں۔ نوٹ بندی سے لوگوں کی حالت ہی بدل گئی ہے۔ سیلری ملی ہوگی لیکن جیب میں نوٹ نہیں ہوں گے۔ بھلے دھن پتی ہو، کھاتے میں پیسہ ہو مگر دماغ میں پریشانی ہے کہ نقدی ملے تو اسے بچا کر گھر میں محفوظ رکھیں۔ یکم نومبر بنام یکم دسمبرکا فرق یہ ہے کہ بھارت کے شہری سے آج غیر اعلانیہ طور پر یہ قانونی آئینی حق چھنا ہوا ہے کہ بینک کو اس کا پیسہ دینے کو مجبور نہیں کرسکتا۔ اپنے ہی پیسے پر اس کا آج حق نہیں ہے۔ وہ کینسر سے مر رہا ہو، شوگر کا مریض ہو، امراض قلب کا مریض ہو ،دمے سے متاثر ہو ،بینک اسے علاج کے لئے نقدی پیسہ نہیں دے گا اس لئے وہ کنجوسی سے اور ہوشیاری سے آئے پیسے کو خرچ کررہا ہے۔جن کالے دھن والے افسروں ، نیتاؤں ،کاروباریو ں، دلالوں کا پیسہ سفید ہوکر بینکوں میں جمع کروادیا ہے، جن کا پیسہ سفید ہوگیا ہے وہ یہ جلدی نہیں کریں گے کہ پیسہ مستقبل قریب میں باہر نکلے یا تو وہ اسے بینک میں رکھیں گے یا پھر اس کے بدلے جتنی 2 ہزار روپے کی نئی گڈیاں لی ہیں وہ تہہ خانے میں یا محفوظ مقام پر رکھوا دیں گے۔ دوسرے الفاظ میں بینکوں میں جمع ہوا کالہ دھن ہو یا پرانے کے بدلے نئے نوٹ لیکر محفوظ بنا لیا پیسہ ہو، سب 6-8 مہینے خریداری کے لئے باہر نہیں نکلے گا۔ دہلی کے ایک سرکاری بینک کے اعلی افسر نے بتایا کہ ان کی برانچ میں کسی دن 5 لوگ بھی 10-20 اور 50 اور 100 روپے کے پرانے نوٹ یا 500-2000 کے نئے نوٹ جمع کرانے نہیں پہنچ رہے ہیں۔ دوسری طرف 500-1000 کے پرانے نوٹ جمع کرنے والوں کی مارا ماری ہے۔ رائج نوٹ واپس بینکوں کے پاس نہ آنے کے سبب گراہوں کو نقدی اختیار کرنا چیلنج بھرا ثابت ہورہا ہے۔ نوٹ بندی سے دیش میں تو عام جنتا متاثر ہوئی ہے لیکن بیرونی ممالک میں ا س کا گہرا اثر پڑا ہے۔ شاید ہی سرکار نے این آر آئی کا خیال کیا ہوگا۔ این آر آئی کہیں کہ بھی ہوں امریکہ، انگلینڈ، آسٹریلیا، دوبئی وبھارت آتے جاتے رہتے ہیں اور ہر پریوار کچھ انڈین کرنسی ضرور رکھتا ہے ۔ دہلی، ممبئی، چنئی یا کولکتہ کہیں بھی ایئرپورٹ پر اترتے ہیں نوٹ نہ بدلوانے پڑیں یہ سوچتے ہوئے بہتوں کے پاس 1000-500 کے پرانے نوٹوں کی گڈیاں 2لاکھ ،5 لاکھ کرنسی ہے۔ یہ سب نوٹ ڈالر دے کر خریدے گئی انڈین کرنسی ہے لیکن بیرونی ممالک میں کہیں بھی انڈین بینکوں میں رہ گئے نوٹ جمع نہیں ہو رہے ہیں۔ اب یہ لوگ شکوہ کررہے ہیں کہ دیش کے لئے ہم نے کیا کچھ نہیں کیا۔ہمیں اس کا یہ صلہ مل رہا ہے؟ تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ امریکہ، کنیڈا، انگلینڈ میں لاکھ لاکھ ، دو لاکھ روپے کی ہندوستانی کرنسی لئے لوگ کالے دھن والے قطعی نہیں ہیں۔ بہرحال امریکہ ، برطانیہ، کینیڈا کے این آر آئی کے مسئلے کو ایک منٹ کے لئے بھول جائیں لیکن پاس کے ملکوں کو لے کر بھی غور نہیں ہوا۔ 8 نومبر کو وزیر اعظم نے نوٹ بندی کا جو اعلان کیا اس میں نیپال، بھوٹان میں بھارت کی کرنسی کے 500-1000کے نوٹوں کا کیا ہوگا؟ خیال رہے کہ دونوں ملکوں میں بھارت کی کرنسی کا برابری سے جائز چلن ہے پھر بھی سیاحوں کا کیا ہوگا؟ میرے ایک واقف کار حال ہی میں (نوٹ بندی سے پہلے) دہلی آئے تھے انہوں نے بھارت دورہ کے دوران 40 ہزار روپے کے نوٹ ڈالر دے کر بدلے تھے۔ اس دوران نوٹ بندی کا اعلان ہوگیا۔ جب وہ واپس گئے تو ایئرپورٹ پر ان کے کل 5 ہزار روپے کے نوٹ ڈالروں میں بدلے گئے۔ مجبوراً انہیں اپنے باقی روپے یہیں چھوڑنے پڑے۔ اس کا سیاحت پر کیا اثر ہوگا یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!