نوٹ بندی کے 30 دن بعد ۔۔۔؟

نوٹ بندی کو ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ نئے نوٹوں کی قلت میں رتی بھر بھی بہتری نہیں آئی ہے۔ 8 نومبر کو وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ جنتا 54 دن کے لئے میرا ساتھ دے۔ لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ان 54 دنوں میں سے30 دن گزرنے کے بعد بھی کرنسی کی قلت کم نہیں ہوئی ہے۔ بینک کھاتوں میں سیلری و بزرگوں کی پنشن آئے 8 دن ہوچکے ہیں لیکن لوگوں کوگھنٹوں لائنوں میں لگ کر بیرنگ لوٹنا پڑرہا ہے۔ بینکوں کو آر بی آئی کے ذریعے بیحد کم نقدی دی جارہی ہے۔ اگرچہ 100 لوگوں کو بھی آر بی آئی کے قواعد و ہدایت کے مطابق 24 ہزار روپے نکالنے دیا جاتا ہے تو برانچ کی نقدی کچھ گھنٹوں میں ہی ختم ہوجاتی ہے۔ بینک کھلنے سے پہلے ہی اس سردی میں لوگوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اے ٹی ایم کا بھی برا حال ہے۔ اکا دکا اے ٹی ایم چلتے ہیں اور گھنٹوں لوگوں کا قیمتی ٹائم برباد ہورہا ہے۔ ایک پرائیویٹ بینک کے سینئر افسر نے مجھے بتایا کہ نئی کرنسی اس تناسب میں نہیں چھپ رہی ہے جتنی اس کی مانگ ہے۔ ریزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل نے دعوی کیا تھا کہ ریزرو بینک اس بات کا خیال رکھ رہا ہے کہ نوٹ پرنٹنگ پریس اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کام کریں تاکہ نئے نوٹوں کی مانگ پوری کی جاسکے۔ یہ وعدہ انہوں نے پچھلے ہفتے ایک انٹرویو میں کیا تھا اور دعوی کیا تھا کہ بینک اور اے ٹی ایم کے باہر قطاریں کم ہوتی نظر آرہی ہیں لیکن آل انڈیا بینک امپلائز ایسوسی ایشن کے سکریٹری جنرل سی ایم وینکٹ چلم ان دعوؤں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریزرو بینک سے نوٹوں کی سپلائی بہت کم ہے اور مانگ بہت زیادہ ہے۔ صرف 20-25 فیصدی مانگ ہی پوری ہورہی ہے۔ریزرو بینک اور سرکار کا یہ دعوی غلط ہے کہ ان کے پاس کیش کی کمی نہیں ہے۔ کیش کی کمی کے سبب گراہکوں اور کرمچاریوں کو کافی دقتیں آرہی ہیں۔ بدھوار کو تو ٹی وی پر دکھا رہے تھے کہ پنجاب میں تو وردی پہنے پولیس اپنی تنخواہ لینے کیلئے بینکوں، اے ٹی ایم کے باہر لائن میں کھڑے ہیں۔ اگر پولیس والوں کو بھی لائن میں لگنا پڑے گا تو قانون و نظام کون سنبھالے گا؟ بینکوں میں گراہکوں اور ملازمین میں جھڑپیں ہونے لگی ہیں۔وینکٹ چلم کا کہنا ہے کہ نوٹوں کی سپلائی کی شفافیت بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ صورتحال نہیں سدھری تو بینک یونین 10 دنوں کے بعد ہڑتال پر جانے پر غور کرسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ زیادہ تر اے ٹی ایم ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے ہیں اس لئے لوگوں کو بہت تکلیف ہورہی ہے۔ بینکوں کا کام لوگوں کو کیش دینا ہے جو نہیں دے پارہے ہیں۔ یہ بہت شرم کی بات ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریزرو بینک آف انڈیا ، سرکار اور آر بی آئی کو لکھے ان کے خطوط پر دوسری طرف سے کوئی رد عمل نہیں آیا ہے۔ نوٹ بندی کے سبب کیش بحران کا اثر ابھی پوری طرح سے عام آدمی کی زندگی میں دکھائی دے رہا ہے۔ مہینے کی 7 تاریخ تک بھی دیش کی زیادہ تر فیکٹریوں میں ورکروں کو سیلری نہیں دی جاسکی ہے۔ فیکٹری مالک اپنے ورکروں کو صرف چیک کے ذریعے پیمنٹ کررہے ہیں لیکن جن ورکروں کے بینک اکاؤنٹ نہیں ہیں انہیں سیلری نہیں مل پائی ہے۔ سب سے بری حالت بہار، یوپی، مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں ہے۔ ایکسپورٹ انجمن کے مطابق اس سے ایکسپورٹ بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ سیلری وقت سے نہ ملنے کے سبب ورکر نوکری چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ورکروں کے نوکری چھوڑنے سے فیکٹریاں بند ہورہی ہیں اور اس سے پیداوار بری طرح سے متاثر ہورہی ہے۔ کچھ فیکٹری مالک تو ہفتے میں ایک دن فیکٹری چلانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ نوٹ بندی کا اب تو اثر باہری ملکوں میں بھی دکھائی دینا شروع ہوگیا ہے۔ روس نے بھارت میں نوٹ بندی کو لیکر سیاسی سطح پر سختی پر احتجاج جتاتے ہوئے بدلے کی کارروائی کرنے تک کی وارننگ دے دی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے دہلی میں اس کے سفارتکاروں کو نقدی کی قلت کا سامنا کر نا پڑرہا ہے۔ دہلی میں واقع روسی سفارتخانے میں قریب200 لوگ کام کرتے ہیں۔ روسی حکومت سے وابستہ ذرائع نے نوٹ بندی کے بعد سے سفارتخانے کے ذریعے ہفتے بھر میں زیادہ تر 50 ہزار روپے نکالنے کی میعاد طے کئے جانے کو بین الاقوامی چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ذرائع نے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ اس کے سفیر الیگزینڈر کلاکن نے 2 دسمبر کو ہندوستانی وزارت خارجہ کو خط لکھا تھا۔اس پر جواب کا انتظار کررہے ہیں۔ روسی حکومت نوٹ بندی پر احتجاج جتانے کے لئے ہندوستانی سفیر کو طلب بھی کر سکتی ہے۔ کلاکن نے اپنے خط میں لکھا کہ سرکار کے ذریعے طے کردہ یہ حد سفارتخانہ چلانے کے اخراجات کے لئے پوری طرح ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیسے تو ایک ٹھیک ٹھیک ڈنر کا بل چکانے کے لئے بھی کافی نہیں ہیں۔ وزارت خارجہ نے روس حکومت کے اس اعتراض پر افسران سے کوئی تبصرہ نہیں کی ہے۔نوٹ بندی کے اشو پر وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے اتراکھنڈ کے وزیر اعلی ہریش راوت نے کہا کہ ان کی طرف سے ایسے دو تین فتوے اور آجائیں تو 2019ء کے لوک سبھا چناؤ کے بعد راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس مرکز میں اقتدار میں ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟