شام میں پوتن کا زبردست سیاسی داؤں

آئے دن خبریں آ رہی ہیں کہ مختلف ملکوں میں کئی لڑکوں کو وہاں کی حکومتیں نے روکا ہے جو کٹر پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے کے لئے شام جانے کی کوشش کررہے تھے۔ شام میں اسلامک اسٹیٹ اور صدر بشرالاسعد کی فوج میں زبردست جنگ چل رہی ہے۔ شام اور عراق میں جس رفتار سے آئی ایس بڑھ رہی تھی اس سے لگتا تھا کہ وہ بہت جلد ہی اپنا قبضہ پورے علاقے میں کر لے گی اور ایک سال سے امریکہ اور یوروپی ساتھی ملکوں نے انہیں روکنے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ روکنے کا ڈرامہ کرتے رہے اور اندر خانے انہیں پیسہ و ہتھیار بھی سپلائی کرتے رہے۔بھلا ہو روس کا جس نے تابڑ توڑ ہوائی حملے کرکے آئی ایس کی بڑھتی رفتار پر روک لگانے کی کوشش کی ہے۔ روس کی مصلح فورسز کے جنرل اسٹاف کے ڈپٹی چیف اینڈری کرتفکولاف نے سنیچر کو کہا کہ ہم نہ صرف ہوائی حملے جاری رکھیں گے بلکہ انہیں تیز بھی کریں گے۔ اینڈری نے کہا کہ آئی ایس کے حملہ بولنے والے ٹھکانے گولہ بارود اور دھماکو سامان والے اڈے اوزار مہیا کرانے والی جگہ اور دہشت گردی ٹریننگ کیمپ خاص طور سے نشانے پر ہیں۔ انہوں نے کہا روس کے جہازوں نے تابڑ توڑ حملوں کے دوران 60 سے زیادہ کارروائیاں کی ہیں اور آئی ایس کے 40 فیصد سے زیادہ ٹھکانوں کو تباہ برباد کردیا ہے۔ ان ہوائی حملوں سے شام کے فوجیوں میں بھی نیا جوش آگیا ہے اور وہ آئی ایس کے خلاف زمینی لڑائی میں جارحیت دکھانے لگے ہیں۔ پچھلے دنوں روس نے کیسپین سی سے 6 مزائلیں شام میں آئی ایس کے ٹھکانوں پر داغیں۔ ایک جہاز سے ان مزائلوں نے تقریباً 1500 کلو میٹر دور تک ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ اس حملے سے روس نے یہ بھی ثابت کردیا کہ روس چپ بیٹھ کر تماشا نہیں دیکھے گا۔ اس نے ان میزائلوں کو 15 کلو میٹر دور سے داغ کر امریکہ اور یوروپ کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سوویت روس کے زوال کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے جب روس نے اس طرح کی اپنی فوجی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ روس نے اپنی کھوئی ساکھ کو بھی ایک جھٹکے میں دوبارہ سے بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوروپ تو روسی حملوں سے ہل گیا ہے۔ امریکہ اب کھل کر روسی مداخلت کی مخالفت کررہا ہے ان کے دوہرے پیمانوں کو جتنے موثر ڈھنگ سے پوتن نے بے نقاب کیا ہے اس سے امریکہ کی بوکھلاہٹ سمجھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف شام کے صدر بشر الاسد نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مشرق وسطی میں روسی فوجی مداخلت ضروری ہے۔ صدر اسد نے ایران کے ایک سرکاری ٹی وی چینل کو دئے گئے انٹرویو میں کہا کہ اگر اس علاقے میں دہشت گردی (آئی ایس) کو ختم کرنا ہے تو شام کو روس، ایران اور عراق کے ساتھ ہونا پڑے گا اور اگر ایسا نہیں ہوا تو پورا خطہ تباہ ہوجائے گا۔ اس اتحاد کی کامیابی کا پورا امکان ہے۔ اسد نے شام اور عراق میں امریکی قیادت والے محاذ کے ذریعے ہو رہے ہوائی حملوں کی بھی مذمت کی تھی۔ شام میں روس کی بڑھتی فوجی سرگرمیوں کے درمیان امریکہ نے جنگ زدہ علاقے میں اسلامک اسٹیٹ کے خاتمے کے لئے اپنی قیادت میں چل رہی بین الاقوامی کوششوں میں ماسکو کو مداخلت نہ کرنے کیلئے آگاہ کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری جان اورنیسٹ نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ صدر اوبامہ نے یہ صاف کردیا ہے کہ روس کو65 ممبروں والے اس بین الاقوامی اتحاد میں مداخلت سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ الٹا آئی ایس کو مضبوط کررہے ہیں۔ اورنیسٹ نے کہا کہ روسی فوج کے زیادہ تر ہوائی حملے ان علاقوں میں کئے جا رہے ہیں جہاں پر آئی ایس کی موجودگی نہ کے برابر ہے۔ روس ،ایران اور عراق ایک خیمے میں ہے اور امریکہ و اس کے ساتھی دوسرے خیمے میں ہیں۔ کچھ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ شام گھریلو جنگ میں ماسکو کے کودنے سے حالات اور زیادہ پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ روس۔ شام میں اپنی پکڑ دنوں دن مضبوط کرتا جارہا ہے اور امریکہ، نیٹو سمیت پوری عالمی برادری بے بس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ولادیمیر پوتن کے پاس شام کو لیکر یقیناًایک مفصل حکمت عملی ہے۔ کچھ واقف کاروں کا کہنا ہے کہ شام میں پوتن کی دخل اندازی کے پیچھے دراصل گھریلو دباؤ ہے، کیونکہ تیل کی گھٹی قیمتیں کیریمیا کے واقعہ کے بعد روس کے خلاف لگی اقتصادی پابندیوں کے سبب ماسکو کی مالی حالت پتلی ہوگئی ہے یا پھر پوتن یوکرین میں بڑھتی ہوئی شورش سے اپنی عوام کی توجہ ہٹانے چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عرب دیش روسی ہوائی حملوں پر بالکل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان کی خاموشی کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ غلط فہمی کی حالات میں ہوکیونکہ شام میں روس نے ایسا ہی داؤں کھیلا ہے جس کا تصور بھی کسی کو نہ ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟