کوئی ایک انچ حصہ بتائیں جہاں گنگا صاف ہے

گنگا کی صفائی کا عزم بار بار دوہرائے جانے کے باوجود حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے اور حالات تقریباً جوں کے توں بنے ہوئے ہیں۔ عدالتیں بھی کئی بار گنگا کو آلودگی سے بچانے کیلئے حکم دے چکی ہیں اور اس میں بڑھتی جارہی کوتاہی پر مرکز اور ریاستی سرکاروں کو پھٹکار لگا چکی ہیں۔ گنگا کو نرمل بنانے کی مہم میں نیشنل گرین ٹریبیونل یعنی قومی ہرت جوڈیشیلزم نے سخت رویہ اپناتے ہوئے متعلقہ وزارتوں اور اتھارٹیوں سے پوچھا ہے کہ گزرے 23 برسوں میں ہزاروں کروڑ روپے پھونکنے کے بعد بھی 2500 کلو میٹر لمبی گنگا کا ایک انچ بھی حصہ کیا صاف ہے؟ گنگا کی حالت بدسے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ مرکزسے اتنا پیسہ ریاستوں کو ملا ہے اس کے باوجود گنگا بدحال ہے۔ اترپردیش اور اتراکھنڈ کو پھٹکار لگاتے ہوئے گرین پینل نے کہا کیوں انہیں چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے مرکز سے بھی پیسہ چاہئے؟ ریاست کی اپنی کوئی ذمہ داری ہے یا نہیں؟ جبکہ پانی، ماحولیات جیسے اشو ریاست کے ہیں۔ گنگا ورکنگ پلان کو شروع ہوئے 30 سال گزر گئے ہیں۔ اس دوران قریب پانچ ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں ۔ مگر حالت یہ ہے کہ ہر سال گنگا میں گندگی مزید بڑھ جاتی ہے۔اس کی صفائی کا کام مرکز اور ریاستی حکومتوں کو مل کر کرنا تھا۔ اس میں 70فیصد پیسہ مرکز اور30 فیصد متعلقہ ریاستی حکومتوں کو لگانا تھا مگر حالت یہ ہے کہ انڈسٹریل یونٹوں اور شہری علاقوں سے نکلنے والے گندے پانی کے ٹریٹمنٹ کیلئے آج تک نہ تو کافی تعداد میں پلانٹ لگائے جاسکے ہیں اور نہ ہی انڈسٹریل کچرے کے نپٹان کا مکمل انتظام ہوپایا ہے۔
انڈسٹریل یونٹوں سے نکلنے والا زہریلا پانی جگہ جگہ گنگا میں سیدھے مل کر گنگا کو ناپاک بنا رہا ہے۔ بیشک کئی بارنیشنل گرین ٹریبیونل کی پھٹکار اور صنعتی یونٹوں کے خلاف سخت قدم اٹھانے کا منصوبہ ضرور باندھا گیا لیکن نتیجہ وہی صفر کا صفر رہا۔ وجہ صاف ہے نہ تو کوئی ٹھوس اسکیم بن سکی اور نہ ہی مرکز اور ریاستوں کے درمیان اس پر ضرور تال میل قائم ہوسکا۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی خود گنگا کو صاف کرنے کی بات کہہ چکے ہیں، بھاجپا نے تو گنگاکو آلودگی سے پاک بنانے کا چناوی اشو بھی بنایا تھا۔ وارانسی سے ایم پی چنے گئے نریندر مودی خود اس میں کافی دلچسپی لیتے رہے ہیں۔اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے امابھارتی کی رہنمائی میں اس کے لئے ایک محکمہ بھی قائم کیا، بڑے بڑے دعوے کئے گئے مگر ڈیڑھ سال میں ایک بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جو سبززاری پلان پر عمل کرسکے۔ گنگا بھارت کی لائف لائن ہے اور اس کی پاکیزگی دیش اور دیش واسیوں کے روشن مستقبل سے وابستہ ہے۔ گنگا کی صفائی مذہبی اشو نہیں ہے اس میں سبھی دیش واسیوں کا مفاد جڑا ہوا ہے سبھی کو مل کر گنگا کو بچانا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟