ڈاکٹر گوگل سرچ سے کررہے ہیں علاج

ڈاکٹروں کی لاپروائی سے مریضوں کی جان جانا معمولی لاپروائی نہیں ہے۔ آپ کسی کی جان سے کھیل رہے ہیں۔ ایک طرح سے ایک مریض کے قتل کرنے کی مانند ہے۔ کچھ دن پہلے دہلی کے دو بڑے ہسپتال صفدرجنگ و ہندوراؤ میں ڈاکٹروں کی لاپروائی سے ایک8 سالہ بچے کا پیڑ کٹا ہوا کہا تھا کہ بچے کے بائیں پیر میں شیشہ پھنس گیا تھا۔ دونوں ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی لاپروائی سے بچے کا پیر کاٹنا پڑا۔ معاملے میں دہلی میڈیکل کونسل (ڈی ایم سی) نے دونوں ہسپتالوں کے چار ڈاکٹروں کا لائسنس ایک مہینے کے لئے منسوخ کردیا ہے۔ یہ واردات دہلی میں ہیلتھ سہولیات کی بدحالی اور ڈاکٹروں کی لاپروائی کو بیان کرتی ہے۔ اس سے صاف ہے کہ دہلی کے ڈاکٹر خاص کر سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو نہ تو صحیح ڈھنگ سے دیکھتے ہیں اور نہ ہی صحیح علاج کرتے ہیں۔ یہ حال اکیلے بھارت کا ہی نہیں اب تو ایک نیا مسئلہ کھڑا ہورہا ہے۔ آپ اسے ڈیجیٹل کلچر بھی کہہ سکتے ہیں اور میڈیکل سیکٹر کی بے بسی بھی۔ایشیا بھر میں ہوئے ایک مطالعہ کے مطابق90فیصد ڈاکٹر علاج کیلئے گوگل کا استعمال کررہے ہیں اور نیٹ سرچ کے بھروسے ہیں۔ ریفرینس کیورنگ ٹریٹمنٹ اینڈ سرجری کے تحت کئے گئے اس مطالعہ میں یہ پتہ لگانے کی کوشش کی گئی تھی کہ ڈاکٹر علاج کے دوران کس ذریعے کی مدد لیتا ہے۔ کس میڈیسن پربھروسہ کرتے ہیں۔ اسٹڈی میں پایا گیا کہ ڈاکٹرز ایک دن کے کام میں تقریباً 6 پروفیشنل سرچ کرتے ہیں۔ یہ بھی پایا گیا کہ 58 فیصد فزیشن سسٹم پر ہی نیٹ سرچ پر یقین کررہے ہیں۔ جبکہ14 فیصد ابھی بھی شائع میڈیکل مواد پر بھروسہ کرتے ہیں۔ 3 میں سے1 فزیشین کا جواب تھا کہ وہ مریض کے علاج کے دوران موبائل سرچ کرلیتے ہیں۔ 
انٹر نیٹ آنے سے اور سب طرح کی معلومات دستیاب ہونے کی وجہ سے اب تو مریض خود بھی بیماری کی جانکاری نیٹ سے لے لیتے ہیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مریض جاننے لگا ہے کہ اسے کیا بیماری ہے اور اس کا کیا علاج ہے؟ اب ایسے مریضوں کو ڈاکٹرآسانی سے بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ دیش میں مریضوں کا علاج کرنے والے کئی ڈاکٹروں کی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اسٹڈی میں سامنے آیا ہے کہ کام کاج کے بوجھ سے سنبھلنے کے لئے کچھ ڈاکٹر اب نشے کے عادی بھی ہورہے ہیں۔ انہوں نے شروع میں مریضوں کے علاج میں استعمال ہونے والی نشیلی دواؤں کا استعمال اپنی کشیدگی دور کرنے کیلئے کیا بعد میں انہیں نشے کی لت لگ گئی۔ بنگلورو میں واقعہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ یورو سائنس کے پانچ سال کی ایک اسٹڈی میں یہ خلاصہ ہوا ہے۔ اسٹڈی انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ جرنل کے تازہ شمارے میں اسٹڈی کو شائع کیا گیا ہے۔ مریضوں کو بھلے ہی نشیلی گولیاں ملنا مشکل ہوں لیکن ڈاکٹروں کو یہ آسانی سے مل جاتی ہیں۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟