دیش کی تعمیر نو کے ساتھ منقسم نیپال میں اتحاد قائم کرنا ہوگا

کھڑگ پرساد شرمااولی کی نیپال کے 38 ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے تاجپوشی کے بعد امید کی جانی چاہئے ہمالیہ کی گود میں بسے اس ملک میں جلد ہی استحکام قائم ہوجائے گا۔ چین حمایتی لیفٹ پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر کے طور پر ان کا وزیر اعظم چنا جانا جتنا اچھا مانا جارہا ہے اتنا ہی فطری بھی ہے۔ ان سے بھارت اور دنیا کی بڑی توقعات ہیں۔ انہیں پرچنڈ کی قیادت والی دیگر لیفٹ پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماؤ وادی) کے ساتھ ہی ایک درجن سے زائد چھوٹی بڑی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہونے کا سیدھا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ میں ان کا راستہ آسان ہوگا۔ اپنے لمبے سیاسی اور جدوجہد بھری زندگی میں14 برس جیل میں گزار چکے اس کمیونسٹ لیڈر کیلئے یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ انہوں نے نیپالی کانگریس کے سابق وزیر اعظم سشیل کمار کوئرالہ کو ہرا کر پارلیمنٹ کے اندر اپنی پکڑ ثابت کردی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ راج شاہی کے خاتمے کے بعد پچھلی ایک دہائی سے نیپال سیاسی طور سے بیحد اتھل پتھل کے دور سے گزرا ہے اور بچی کچی کثر اس برس آئے خوفناک زلزلے نے پوری کردی۔ اب اولی کے سیاسی نظم اور ٹیلنٹ کے امتحان کی گھڑی آگئی ہے۔ ایک طرف بھارت تو دوسری طرف چین۔ ایک طرف مدھیشی اور دوسری طرف پہاڑ کی عوام ۔ ان میں کیسے تال میل بٹھاتے ہیں۔ اب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہوگیا ہے ۔ اولی نے دیش کی باگ ڈور ایسے وقت میں سنبھالی ہے جب نیا آئین بننے کے بعد مدھیشی اور تھارو جن جاتی کی تشدد آمیز تحریک کا سامنا کررہا ہے۔ آئین بناتے وقت ان کی توقعات پر توجہ نہ رکھے جانے کا الزام ہے۔ بھارت سے نیپال کی 1750 کلو میٹر لمبی سرحد لگتی ہے اور ترائی کا پورا علاقہ ہندوستان سے لگا ہوا ہے۔ مدھیشیوں کے کلچرل رشتے نیپال کے پہاڑی علاقوں سے زیادہ بھارت سے ہیں۔ تحریک کے تشدد اختیار کرلینے کی وجہ بھارت سے جانے والے سامان اور پیٹرو منصوعات نیپال نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ مدھیشی ناکہ بندی اس کی سب سے بڑی وجہ رہی ہے۔ ا نکار کے بعد بھی وہاں کی زیادہ تر پارٹیاں بھارت کو ہی قصوروار مان رہی ہیں۔ مدھیشیوں کی ہمدردی بھارت کے ساتھ ہے اور ان کی اس سے زیادہ توقعات بھی ہیں وہ چاہتے ہیں کہ بھارت درپردہ طور پر مداخلت کرے۔اولی کے سامنے دیش کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ مدھیشی اور تھارو جن جاتی سمیت دیگر ناراض لوگوں کو نیپال کی 67 سالہ تاریخ میں 7ویں آئین کی منظوری کے بعد ساتھ ساتھ مل کر دیش کو آگے بڑھانے کی زبردست چنوتی ہوگی۔ جہاں تک بھارت کا سوال ہے فی الحال ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ نیپال نے ہماری جگہ چین کے قریب آنا بہتر سمجھا۔ نیپال پر چین کی گہری نظر لگی ہوئی ہے۔ وہ تو چاہتا ہے کہ میکرین بھارت کو نیپال سے دور کردے تاکہ تبت کی طرح وہ نیپال میں بھی منمانی کرسکے۔ دیکھیں اولی ان سبھی مسائل کا کیا حل نکالتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!